حیدرآباد: کنچہ گچی باؤلی میں 400 ایکڑ اراضی پر مجوزہ ترقیاتی منصوبے کے خلاف حیدرآباد یونیورسٹی طلبہ یونین کی جانب سے سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر منظم مہم کے ایک دستاویز کے منظرعام پر آنے کے بعد سیاسی عزائم پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ اس دستاویز میں سوشل میڈیا پر جذباتی اور سیاسی نوعیت کے پیغامات کے ذریعے احتجاج کو ہوا دینے کی حکمت عملی بیان کی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ دستاویز “ٹوئٹر اسٹارم” کے عنوان سے گردش کر رہی ہے، جس میں طلبہ اور حامیوں کو #SaveHCUBiodiversity اور #SaveHCULand جیسے ہیش ٹیگز کے ذریعے اس منصوبے کو ماحولیاتی بحران اور زمین کے حقوق کے مسئلے کے طور پر پیش کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ دستاویز میں پچاس سے زائد تیار شدہ پیغامات شامل ہیں جن میں کئی میں ریاستی وزیراعلٰی اور کانگریس کے اعلیٰ رہنماؤں کا ذکر بھی موجود ہے۔
حکام نے واضح کیا ہے کہ جس زمین پر منصوبہ تجویز کیا گیا ہے وہ یونیورسٹی کی ملکیت نہیں بلکہ حکومت تلنگانہ کی اراضی ہے۔ یہ زمین 2004 میں اس وقت کی آندھرا پردیش حکومت نے آئی ایم جی بھارتا پرائیویٹ لمیٹڈ کو الاٹ کی تھی، تاہم تاخیر کے باعث 2006 میں اس الاٹمنٹ کو منسوخ کر دیا گیا۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے بھی اس بات کی توثیق کی کہ یہ زمین ریاستی حکومت کی ملکیت ہے۔
تلنگانہ اسٹیٹ انڈسٹریل انفراسٹرکچر کارپوریشن (ٹی جی آئی آئی سی) کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ زمین یونیورسٹی کے حدود سے باہر واقع ہے اور اس سے نہ تو یونیورسٹی کے ماحولیاتی زونز، چٹانی ساختوں اور آبی ذخائر کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ جولائی 2024 میں حکومت اور یونیورسٹی کے نمائندوں کی موجودگی میں ایک مشترکہ سروے کے ذریعے زمین کی حد بندی کی جاچکی ہے۔
ٹی جی آئی آئی سی کے مطابق حکومت کا مقصد یہاں ایک پائیدار، عالمی معیار کا آئی ٹی اور اختراعی مرکز قائم کرنا ہے جو قدرتی حسن کو برقرار رکھتے ہوئے ریاستی نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرے گا۔ اس منصوبے میں مشہور مشروم راک جیسے قدرتی مقامات کو محفوظ رکھنے اور سبزہ زار کو برقرار رکھنے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔
حکام نے مزید بتایا کہ اس منصوبے کے لیے تمام ماحولیاتی منظوریوں اور ایک تفصیلی ماحولیاتی نظم و نسق منصوبے پر کام جاری ہے۔ چونکہ یہ زمین غیر جنگلاتی زمرے میں آتی ہے، اس لیے کسی قسم کی جنگلاتی منظوری درکار نہیں۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سوشل میڈیا مہم طلبہ احتجاج کے عروج پر شروع کی گئی ہے تاکہ قومی سطح پر توجہ حاصل کی جا سکے۔ اس مہم کے دوران شرکاء کو کانگریس رہنماؤں راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کو ہر پیغام میں ٹیگ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، جس سے اس کے سیاسی عزائم پر شبہات بڑھ گئے ہیں۔
ریاستی حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ کسی بھی آن لائن دعوے پر ردعمل دینے سے قبل اس کی حقیقت کی تصدیق کریں۔ ایک عہدیدار نے کہا کہ “یہ زمین کبھی یونیورسٹی کی ملکیت نہیں رہی، اور سپریم کورٹ بھی یہ واضح کر چکی ہے۔ غلط معلومات پھیلانا صرف عوام میں الجھن پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔”
اگرچہ طلبہ کو احتجاج کا حق حاصل ہے، تاہم ریاستی حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے پُرعزم ہے اور آن لائن مہم کو ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کی ایک “منظم سازش” قرار دے رہی ہے۔