حیدرآباد: حیدرآباد یونیورسٹی کی اراضی کے معاملے پر طلبہ اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بڑھتے ہوئے احتجاج کے پیش نظر، حکومتِ تلنگانہ نے ایک جامع ایکشن پلان مرتب کیا ہے تاکہ ان اعتراضات کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔
ڈپٹی چیف منسٹر کی اہم ملاقاتیں
منگل کے روز، ڈپٹی چیف منسٹر بھٹی وکرمارکا نے پروفیسر ہرا گوپال، ایم ایل سی کودنڈا رام، اور دیگر عوامی تنظیموں کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ اس اجلاس میں حیدرآباد یونیورسٹی کی اراضی کے تنازع، اس کی الاٹمنٹ، اور عدالتوں میں جاری مقدمات پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ ان اراضیات پر طویل عرصے سے قانونی چارہ جوئی جاری ہے، لیکن یونیورسٹی نے کبھی بھی ان مقدمات میں فریق بننے کی کوشش نہیں کی۔ اب جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق حکومت ان کو اپنی تحویل میں لے کر نیلام کر رہی ہے، اچانک یونیورسٹی اور طلبہ کی جانب سے اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔
حکومت کا مؤقف اور اپوزیشن کا ردعمل
حکومت کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر یہ اراضی اس کی ملکیت ہیں اور ان کی نیلامی کا عمل عدالت کے فیصلوں کے مطابق ہے۔ تاہم، طلبہ اور اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ یہ اراضیات تعلیمی مقاصد کے لیے مختص ہیں اور ان کی نیلامی سے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچے گا۔ حکومت کا خیال ہے کہ ان احتجاجات کے پس پردہ سیاسی محرکات کارفرما ہیں اور اس نے عوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر طلبہ کو حقائق سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ کی مداخلت اور آئندہ کے اقدامات
وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی نے اس معاملے پر وزراء کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کیا، جس میں ڈپٹی چیف منسٹر بھٹی وکرمارکا، وزراء پونم پربھاکر، کودنڈ ا رام، کونڈا سریکھا، اور دیگر نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں وزیر اعلیٰ نے موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے وزراء کو ہدایت دی کہ وہ عوام میں درست معلومات پہنچائیں اور احتجاجات کو پُرامن طریقے سے نمٹائیں۔
آئندہ کا لائحہ عمل
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ طلبہ اور عوامی تنظیموں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے گی تاکہ اس معاملے پر پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے۔ ڈپٹی چیف منسٹر بھٹی وکرمارکا اور دیگر وزراء جلد ہی میڈیا کے ذریعے عوام کو اس معاملے پر حکومت کے مؤقف سے آگاہ کریں گے۔
نوٹ: یہ خبر تازہ ترین معلومات پر مبنی ہے اور صورتحال میں مزید تبدیلیاں متوقع ہیں۔