حالیہ اطلاعات میں انکشاف ہوا ہے کہ تلنگانہ پولیس دیہاتی سطح کے واٹس ایپ گروپس میں شامل ہوکر عوامی رائے پر نظر رکھ رہی ہے اور حکومت کے خلاف آن لائن مخالفت کرنے والوں کی نشاندہی کر رہی ہے۔
حیدرآباد: ایک تشویشناک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تلنگانہ پولیس ریاست بھر کے دیہی علاقوں میں واٹس ایپ گروپس میں شمولیت اختیار کر رہی ہے تاکہ حکومت کے بارے میں عوامی جذبات کو جانچا جا سکے اور ان افراد کی شناخت کی جا سکے جو حکومت یا چیف منسٹر ریونت ریڈی کے خلاف تنقیدی مواد پوسٹ کرتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، اعلیٰ حکام کی ہدایت پر کانسٹیبلز اور ہوم گارڈز کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ مختلف واٹس ایپ گروپس میں شامل ہوں۔ ان گروپس میں سیاسی جماعتوں کے کارکن، گرام پنچایت ممبران، ذات پات پر مبنی تنظیمیں، مذہبی حلقے، یوتھ گروپس، اور دیگر سماجی تنظیمیں شامل ہیں۔ پولیس کا مقصد ان مباحثوں پر نظر رکھنا، عوامی رائے کو جانچنا اور ناقدین کی شناخت کرنا بتایا جا رہا ہے۔
کچھ معاملات میں جب دیہاتی پولیس اسٹیشنز کا دورہ کرتے ہیں تو ان سے گروپ ایڈمنز کے بارے میں معلومات طلب کی جاتی ہیں اور انہیں پولیس اہلکاروں کو گروپ میں شامل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس اقدام کے ذریعے پولیس ایک وسیع نگرانی نیٹ ورک قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو ریاست کے گاؤں، منڈل اور اضلاع تک پھیلا ہوا ہے۔
اگرچہ حکومت کی جانب سے باضابطہ تصدیق نہیں کی گئی ہے، لیکن ان اطلاعات نے شہریوں کی پرائیویسی اور اظہارِ رائے کی آزادی کے حوالے سے خدشات کو جنم دیا ہے۔
یہ معاملہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب حال ہی میں چند صحافیوں کو چیف منسٹر کے خلاف پوسٹس کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا، جس سے ریاست میں صحافتی آزادی پر بحث تیز ہو گئی ہے۔
مبصرین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور ریاست میں شہری آزادیوں کے تحفظ پر زور دے رہی ہیں۔