حیدرآباد: کانگریس کے رکن پارلیمنٹ چمالہ کرن کمار ریڈی نے کنچہ گچی باولی میں سروے نمبر 25 کے تحت آنے والی 400 ایکڑ متنازعہ اراضی کو جنگلات کی زمین قرار دینے کے دعووں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے ایک سیاسی سازش قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ زمین سرکاری ہے اور اسے قانونی طور پر تلنگانہ اسٹیٹ انڈسٹریل انفراسٹرکچر کارپوریشن (TGIIC) کو منتقل کیا گیا تھا۔
مرکزی ایمپاورڈ کمیٹی (CEC) کو دی گئی اپنی تفصیلی نمائندگی میں، کرن کمار ریڈی نے واضح کیا کہ ریونیو ریکارڈ میں یہ زمین “کنچہ اسطبل پورمبوک سرکاری” کے طور پر درج ہے اور نہ ہی ریونیو ڈپارٹمنٹ اور نہ ہی فارسٹ ڈپارٹمنٹ نے اسے کبھی جنگلاتی زمین قرار دیا ہے۔
انہوں نے کچھ مفاد پرست عناصر پر الزام لگایا کہ وہ ماحولیات کے نام پر جھوٹا بیانیہ گھڑ کر تلنگانہ کی ترقی کو روکنے اور کانگریس حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کرن کمار ریڈی نے اراضی کی تاریخی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ 1975 میں یونیورسٹی آف حیدرآباد (UoH) کو یہ اراضی استعمال کے لیے دی گئی تھی، لیکن اسے ملکیت نہیں دی گئی۔ 2003 میں IMG Bharata کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا، جس کے بعد 534.28 ایکڑ زمین UoH سے واپس لی گئی۔ ان میں سے 400 ایکڑ اسپورٹس اتھارٹی کو دیے گئے اور 134.28 ایکڑ تلنگانہ کے سرکاری ملازمین کے لیے مختص کیے گئے، جب کہ اس کے بدلے میں UoH کو سروے نمبر 36 اور 37 میں 397 ایکڑ زمین دی گئی، جس کے بعد یونیورسٹی نے پرانی زمین پر اپنا دعویٰ واپس لے لیا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یونیورسٹی کی جانب سے دائر کی گئی عرضی (W.P. No. 816/2021) کو تلنگانہ ہائی کورٹ پہلے ہی مسترد کر چکی ہے اور عدالت نے قرار دیا کہ UoH کے پاس اس زمین پر کوئی قانونی حق نہیں ہے۔ اس کے باوجود یونیورسٹی نے متنازعہ 10 ایکڑ زمین پر بغیر اجازت بڑی تعمیرات کر ڈالیں۔
کرن کمار ریڈی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ریاستی حکومت اور IMG Bharata کے درمیان قانونی لڑائی کئی برسوں سے جاری تھی، جو مئی 2024 میں سپریم کورٹ کے ذریعہ IMG کی اسپیشل لیو پٹیشن (SLP No. 9265/2024) کے خارج ہونے پر ختم ہو گئی۔ اس سارے معاملے میں UoH نے کبھی فریق نہیں بنایا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کا کوئی قانونی دعویٰ موجود نہیں تھا۔
انہوں نے مرکزی وزیر جی کشن ریڈی اور بی آر ایس لیڈر جی جگدیشور ریڈی پر بھی تنقید کی، کہ وہ مبینہ طور پر جعلی AI-generated تصاویر کے ذریعے درختوں کی کٹائی اور ماحولیاتی نقصان کے دعوے پھیلا رہے ہیں۔ “جھوٹے بیانیے اور فرضی تصاویر کے ذریعے عوام کو گمراہ کیا گیا۔ کئی افراد کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی جا چکی ہیں،” انہوں نے کہا۔
ماحولیاتی نقصان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے، ایم پی نے بتایا کہ قانونی تنازع کی وجہ سے زمین برسوں تک غیر ترقی یافتہ رہی، اور جھاڑیوں اور پودوں کو جنگل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس زمین کے اطراف میں پہلے سے ہی بڑے سبزہ زار موجود ہیں جیسے 274 ایکڑ پر محیط کے بی آر بوٹینیکل گارڈن اور 535 ایکڑ پر پھیلا ہوا فنانشل ڈسٹرکٹ گالف کورس، جو محض پانچ کلومیٹر کے دائرے میں آتے ہیں۔
انہوں نے حکومت کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی کابینہ نے جون 2024 میں زمین کے منتقل کرنے کی منظوری دی تھی، اور TGIIC نے یکم جولائی 2024 کو باضابطہ قبضہ حاصل کر لیا۔ یہ زمین ایک آئی ٹی اور مکسڈ یوز ڈیولپمنٹ پراجیکٹ کے لیے مختص ہے، جس سے متوقع طور پر ₹50,000 کروڑ کی سرمایہ کاری اور پانچ لاکھ روزگار پیدا ہوں گے۔
“یہ محض ایک اراضی کا معاملہ نہیں بلکہ تلنگانہ کے مستقبل کا سوال ہے۔ کچھ مفاد پرست قوتیں حیدرآباد کی ترقی کو روکنا چاہتی ہیں اور نوجوانوں سے ان کے مواقع چھیننا چاہتی ہیں،” کرن کمار ریڈی نے کہا اور CEC سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کا فیصلہ حقائق اور عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر کرے۔