حیدرآباد: تلنگانہ حکومت نے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے اپنے حلف نامے میں واضح کیا ہے کہ Kancha Gachibowli میں موجود 400 ایکڑ اراضی مکمل طور پر ریاستی ملکیت ہے اور یہ کبھی بھی جنگلاتی اراضی کے طور پر درج نہیں کی گئی۔
یہ وضاحت ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے جب حکومت کی جانب سے ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے اس اراضی کو بلڈوزرز کی مدد سے ہموار کرنے پر ماحولیاتی ضوابط کی خلاف ورزیوں کے الزامات سامنے آئے۔ جس پر سپریم کورٹ کے جسٹس بی آر گاوئی کی صدارت میں بینچ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے اس مقام پر تمام سرگرمیوں پر روک لگا دی اور 16 اپریل تک پانچ نکاتی سوالات کے جواب طلب کیے۔
سپریم کورٹ کے سوالات:
1. اراضی پر درخت کاٹنے سمیت ترقیاتی سرگرمیوں کی فوری ضرورت کیوں پیش آئی؟
2. کیا ان ترقیاتی منصوبوں کے لیے ماحولیاتی اثرات کی جانچ (EIA) کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا گیا؟
3. درخت کاٹنے کے لیے جنگلات اور مقامی قوانین کے تحت لازمی اجازتیں حاصل کی گئیں؟
4. سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق تشکیل دی گئی ماہرین کی کمیٹی میں ایسے افسران کو کیوں شامل کیا گیا جن کا جنگلات کی شناخت سے کوئی تعلق نہیں؟
5. جو درخت کاٹے جا چکے ہیں، ان کا کیا کیا گیا؟
حکومت کا جواب
حکومت نے جواب میں کہا کہ مذکورہ اراضی کبھی بھی جنگلاتی ریکارڈ کا حصہ نہیں رہی، بلکہ گزشتہ دو دہائیوں سے قانونی تنازعات کی وجہ سے خالی پڑی تھی، جس دوران قدرتی طور پر درخت اگ آئے۔
حلف نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ مقام عوامی بنیادی ڈھانچے کی توسیع کے لیے موزوں ہے اور یہاں کوئی قانونی رکاوٹ باقی نہیں۔ حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کو سرمایہ کاری اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کا ذریعہ قرار دیا۔
حکومت نے جنگلی حیات سے متعلق خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ جانور اس مقام کے مخصوص نہیں بلکہ قریبی 2000 ایکڑ کے علاقے بشمول مرکزی یونیورسٹی کیمپس میں گھومتے ہیں۔ حکومت نے یقین دہانی کرائی کہ ترقیاتی کاموں کے دوران جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔
مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا گیا کہ جو درخت کاٹے گئے وہ کسی محفوظ زمرے میں نہیں آتے۔ حکومت نے متبادل اراضی مختص کرنے اور ضرورت پڑنے پر نئے پودے لگانے کی بھی تیاری ظاہر کی ہے۔