
حیدرآباد: تلنگانہ ہائی کورٹ کے جسٹس بی وجئے سین ریڈی نے پیر کے روز گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن (جی ایچ ایم سی) پر غیر قانونی تعمیرات GHMC Illegal Constructions کو روکنے میں ناکامی پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب ہر علاقے کے لیے الگ انفورسمنٹ اسٹاف تعینات ہے تو پھر تعمیرات مکمل ہونے تک یہ افسران کیا کرتے ہیں؟ کیا وہ صرف تماشائی بنے رہتے ہیں؟
معاملے میں یہ ریمارکس اس وقت سامنے آئے جب گُٹّلہ بیگم پیٹ کے رہائشی کَمسالی رَگھوویرا آچاری کی جانب سے دائر کردہ ایک عرضی پر سماعت ہوئی، جس میں جی ایچ ایم سی کی جانب سے جاری کردہ انہدامی نوٹس کو چیلنج کیا گیا تھا۔
جسٹس وجئے سین ریڈی نے مشاہدہ کیا کہ جی ایچ ایم سی کے افسران عموماً غیر قانونی تعمیری سرگرمیوں کے دوران خاموش رہتے ہیں اور صرف عدالت کی مداخلت کے بعد حرکت میں آتے ہیں، جب تک عمارت مکمل ہو چکی ہوتی ہے۔ انہوں نے افسران کی جانب سے جاری کیے جانے والے ’اسپیکنگ آرڈرز‘ کو محض رسمی کارروائی قرار دیا اور بعد میں کی جانے والی انہدامی کارروائی کو ’’تماشہ‘‘ قرار دیا۔
عدالت نے جی ایچ ایم سی کی پالیسی میں پائے جانے والے تضاد پر بھی سوال اٹھایا کہ ایک طرف تو افسران تعمیری عمل سے لاعلمی کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن جیسے ہی عمارت مکمل ہو جاتی ہے، وہ فوری طور پر اس پر ٹیکس عائد کر دیتے ہیں۔
ہائی کورٹ نے واضح کیا کہ غیر قانونی تعمیرات پر نظر رکھنے اور انہیں بروقت روکنے کی مکمل ذمہ داری جی ایچ ایم سی کے متعلقہ افسران پر عائد ہوتی ہے، اور اگر وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو یہ نہ صرف بدانتظامی بلکہ عوامی اعتماد کی خلاف ورزی ہے۔
آچاری نے دلیل دی کہ انہدام کے نوٹس نے جی ایچ ایم سی ایکٹ کی دفعات کی خلاف ورزی کی ہے اور اسے منسوخ کرنے کے لئے عدالت سے ہدایت کی درخواست کی ۔ آچاری نے زبردستی اقدامات سے تحفظ کی بھی درخواست کرتے ہوئے عدالت پر زور دیا کہ وہ ریاست کی بلڈنگ ریگولرائزیشن اسکیم کے تحت ان کی زیر التواء درخواست پر فیصلہ سنائے۔
گذارشات کا نوٹس لیتے ہوئے، عدالت نے حکم دیا کہ بی آر ایس درخواستوں کے حل ہونے تک جمود برقرار رکھا جائے۔ کیس کی سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کر دی گئی۔