حیدرآباد: سابق وزیر و بی آر ایس رہنما ٹی ہریش راؤ نے آندھرا پردیش کے مجوزہ 80,000 کروڑ روپۓ مالیت کے Banakacherla project کو مرکز کی جانب سے حمایت دیے جانے پر شدید اعتراض کیا ہے اور اسے تلنگانہ کے آبی حقوق کے ساتھ ناانصافی قرار دیا ہے۔
ہفتہ کے روز جاری کردہ ایک سخت بیان میں ہریش راؤ نے الزام عائد کیا کہ یہ منصوبہ دریا کے نظم و نسق بورڈز کی منظوری کے بغیر ہی آگے بڑھایا جا رہا ہے، حالانکہ آندھرا پردیش تنظیم نو قانون کے تحت ایسی منظوری لازم ہے۔ اس کے باوجود مرکز نے نہ صرف اس منصوبے کی 50 فیصد مالی معاونت پر رضامندی ظاہر کی ہے بلکہ آندھرا پردیش کو اپنے ایف آر بی ایم حدود سے تجاوز کر کے باقی رقم اکٹھا کرنے کی بھی اجازت دے دی ہے۔
ہریش راؤ نے اسے وفاقی انصاف کے اصولوں سے غداری قرار دیا اور کہا کہ جب تلنگانہ نے کالیشورم پراجیکٹ کے لیے مدد مانگی تھی تو اس پر سخت مالی حدود لاگو کی گئیں، لیکن آندھرا پردیش کے لیے مرکز نے نرمی برتی۔
انہوں نے دہلی میں تلنگانہ کی سیاسی نمائندگی پر بھی سوال اٹھایا، اور کہا کہ ریاست کے 8 بی جے پی، 8 کانگریس ارکان پارلیمان اور دو مرکزی وزراء کی خاموشی باعث تشویش ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر نمائندے ریاستی مفادات کا دفاع نہیں کر سکتے تو ان کی موجودگی کا کیا فائدہ؟
ہریش راؤ نے ریاستی حکومت پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض غفلت نہیں بلکہ قیادت کی مکمل ناکامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ تو کوئی اعتراض اٹھایا گیا اور نہ ہی قانونی سطح پر کوئی چیلنج دائر کیا گیا۔
انہوں نے اس منصوبے کو سابق متحدہ آندھرا پردیش کے دور میں شروع کردہ پوتھی ریڈی پادو پراجیکٹ سے تشبیہ دی، جس نے کرشنا دریا کا پانی منتقل کیا تھا۔ اب وہی صورتحال گوداوری دریا کے ساتھ دہرائی جا رہی ہے، اور یہ سب ایک بار پھر کانگریس حکومت کے دور میں ہو رہا ہے۔
ہریش راؤ نے نیتی آیوگ کے آئندہ اجلاس کے پیش نظر چیف منسٹر ریونت ریڈی سے مطالبہ کیا کہ وہ قومی سطح پر اس مسئلے کو مؤثر انداز میں اٹھائیں۔ انہوں نے کہا کہ ریونت ریڈی کو فوری طور پر بنکاچرلہ منصوبے کو روکنے کا مطالبہ کرنا چاہیے اور تلنگانہ کے دریائی پانی کے حصے کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے۔ ریاست کے عوام قیادت چاہتے ہیں، خاموشی نہیں۔