
حیدرآباد: [en]Fee Hike[/en] کی کوششوں کو بڑا دھچکہ دیتے ہوئے تلنگانہ ہائی کورٹ نے نجی انجینئرنگ کالجوں کی جانب سے ٹیوشن فیس بڑھانے کی اجازت طلب کرنے والی درخواست کو عبوری احکامات کے ذریعے مسترد کر دیا ہے۔ عدالت نے فیس ریگولیشن کمیٹی کو ہدایت دی ہے کہ ریاست بھر کے انجینئرنگ کورسس کے لیے فیس اسٹرکچر کو چھ ہفتوں میں قطعیت دی جائے۔
یہ حکم ایسے وقت میں آیا ہے جب کمپیوٹر سائنس اور اس سے متعلق کورسس میں داخلوں کی مانگ عروج پر ہے۔ بڑے نجی کالجوں میں محدود نشستوں کے باعث والدین کسی بھی قیمت پر داخلہ حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کالج انتظامیہ مینجمنٹ کوٹہ کے تحت مبینہ طور پر 10 تا 20 لاکھ روپئے تک کی فیس طلب کر رہی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں 1.18 لاکھ کے قریب انجینئرنگ نشستیں موجود ہیں، جن میں سے 60 فیصد سے زائد کمپیوٹر سائنس اور اس سے جڑی برانچز میں ہیں۔ گزشتہ سال 1,07,160 نشستوں پر داخلے ہوئے، جن میں 79,224 کنوینر کوٹہ اور 27,936 مینجمنٹ کوٹہ کے تحت تھے۔
تاہم ریاست کے 175 نجی انجینئرنگ کالجوں میں سے صرف 15 تا 20 کالج ایسے ہیں جہاں طلبہ کی طلب زیادہ ہے۔ دوسری اور تیسری سطح کے کالج بھی 8 تا 12 لاکھ روپئے کی فیس مینجمنٹ کوٹہ کے تحت وصول کر رہے ہیں، حالانکہ ان میں معیاری تعلیم کی ضمانت نہیں۔
عدالت نے نشاندہی کی کہ فیس میں اضافے کی اجازت دینے سے طلبہ پر غیر ضروری مالی بوجھ پڑے گا۔ فیس ریگولیشن کمیٹی کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ طلبہ کے مفاد میں شفاف اور منصفانہ فیس ڈھانچہ جلد از جلد تیار کرے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر سائنس کی بڑھتی ہوئی مانگ کو دیکھتے ہوئے نشستوں میں متناسب اضافہ نہ ہونے کے باعث یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے، جس کا ناجائز فائدہ چند ادارے اٹھا رہے ہیں۔