حیدرآباد: تلنگانہ کے نائب وزیر اعلی و وزیر خزانہ بھٹی وکرمارکا نے سابقہ بی آر ایس حکومت پر بجٹ کی بدانتظامی اور مالیاتی بے ضابطگیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے اسمبلی میں شدید تنقید کی۔
بھٹی وکرمارکا نے کہا کہ بی آر ایس نے اپنی دس سالہ حکومت میں کل 16.70 لاکھ کروڑ روپۓ کا بجٹ پیش کیا لیکن فنڈز کو مؤثر طریقے سے خرچ کرنے میں ناکام رہی، جس کی وجہ سے ریاست شدید مالی بحران کا شکار ہو گئی۔
بھٹی نے کہا کہ بی آر ایس حکومت مسلسل بڑے حصے کے فنڈز خرچ کرنے میں ناکام رہی۔ انہوں نے مختلف مالی سالوں کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 2015-16 میں 15 فیصد فنڈز خرچ ہی نہیں کیے گئے۔ یہ رجحان بعد میں بھی جاری رہا: 2016-17 میں 6 فیصد، 2017-18 میں 19 فیصد، 2018-19 میں 22 فیصد، اور 2022-23 اور 2023-24 دونوں میں 20 فیصد فنڈز استعمال نہیں کیے گئے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ سی اے جی نے بھی بی آر ایس حکومت کو اس کی غیر متوازن مالی پالیسیوں پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ “ہم نے بغیر سوچے سمجھے بجٹ بڑھانے کے بجائے غیر ضروری اخراجات میں کمی کی ہے۔ ہم نے قابلِ حصول بجٹ پیش کیا ہے اور رواں سال کے اندر اس پر عمل درآمد کا وعدہ کیا ہے،” بھٹی نے کہا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کانگریس کی قیادت والی حکومت بجٹ کے 100 فیصد استعمال کو یقینی بنائے گی۔
بی آر ایس کے رہنما ہریش راؤ کے “مالیاتی یا فکری سست روی” کے تبصرے پر ردعمل دیتے ہوئے بھٹی وکرمارکا نے کہا کہ سابقہ حکومت نے ترقی نہیں بلکہ معاشی بدنظمی پیدا کی۔ انہوں نے سوال کیا کہ جو حکومت 8.19 لاکھ کروڑ روپۓ کا قرض چھوڑ کر گئی، وہ حکمرانی کے معیار پر کیسے بات کر سکتی ہے؟ “بی آر ایس نے دس سال میں 16.70 لاکھ کروڑ روپۓ خرچ کیے لیکن کوئی ٹھوس اثاثے تیار نہ کر سکی۔ ان کا واحد دعویٰ کالیشورم منصوبہ ہے، اور ہم سب اس کی موجودہ حالت سے واقف ہیں،”۔
انہوں نے مزید کہا کہ بی آر ایس نے ہر سال بجٹ کو بلاجواز 10-15 فیصد تک بڑھایا۔ بھٹی وکرمارکا نے کہا، “اگر ہم نے آپ کا ماڈل اپنایا ہوتا تو بجٹ 4.18 لاکھ کروڑ روپۓ سے تجاوز کر جاتا۔ لیکن ہم نے اسے روپۓ3.04 لاکھ کروڑ تک محدود رکھا اور اصل اعداد و شمار پیش کیے،” ۔
اسمبلی میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق، موجودہ حکومت نے 7 دسمبر 2023 کے بعد سے 2,99,414 کروڑ روپۓ خرچ کیے ہیں، جب کہ آمدنی روپۓ2,80,603 کروڑ رہی۔ اہم اخراجات میں ملازمین کی تنخواہوں کے لیے 77,000 کروڑ روپۓ، سود کی ادائیگیوں کے لیے 88,000 کروڑ روپۓ، اور فلاحی اسکیموں کے لیے 1.34 لاکھ کروڑ روپۓ شامل ہیں۔
بھٹی وکرمارکا نے کہا نے شفافیت اور جوابدہی پر زور دیتے ہوئے مختلف اقلیتوں اور طبقات کے لیے خود روزگار اسکیموں کے تحت راجیو یووا وکاسم میں روپۓ6,000 کروڑ، اور ای ڈبلیو ایس نوجوانوں کے لیے 600 کروڑ روپۓ مختص کرنے کا اعلان کیا۔ مزید برآں، برہمن پریشد کے لیے 50 کروڑ روپۓ اور برہمن برادری کے لیے خود روزگار اسکیموں کے لیے مزید روپۓ50 کروڑ مختص کیے گئے۔ کانگریس حکومت کے تحت بنائی گئی ویشیا کارپوریشن کو بھی پہلی بار 25 کروڑ روپۓ کی گرانٹ دی گئی۔
سابقہ حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے بھٹی وکرمارکا نے کہا نے کہا کہ وہ دس سال میں ایک لاکھ مکانات بھی تعمیر نہ کر سکی۔ “آپ ہاؤسنگ کی بات کرتے ہیں، لیکن ایک لاکھ گھر بھی نہیں بنائے،” انہوں نے کہا۔ تعلیم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 58 مربوط اسکولوں کی تعمیر جاری ہے اور 240 اسکولوں کو رہائشی اسکولوں کے معیار تک ترقی دی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت نے 50 دنوں کے اندر 11,000 ڈی ایس سی پوسٹس پر تقرری کی، 22,000 اساتذہ کو ترقی دی گئی، اور 36,000 اساتذہ کے تبادلے کی منظوری دی گئی۔ ہاسٹلز کے ڈائٹ چارجز میں اضافہ کیا گیا اور یونیفارم کے چارجز میں 200 فیصد اضافہ کیا گیا۔
وزیر خزانہ نے سابقہ حکومت پر کانگریس رہنماؤں کی پرامن احتجاج کے دوران گرفتاری اور سنجیدہ موضوعات پر “گووندا” جیسے نعرے لگانے پر بھی تنقید کی۔ بھٹی نے کہا کہ کانگریس حکومت نے صرف چار ماہ میں 20,617 کروڑ روپۓ کے زرعی قرضے معاف کیے ہیں، جو عوام کے تئیں ان کے عزم کا ثبوت ہے۔
قبائلی فلاح و بہبود پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے “گری وکاسم” کے تحت 12,500 کروڑ روپۓ کے منصوبے کا اعلان کیا جس کا مقصد قبائلی برادری کی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ انہوں نے سابقہ حکومت پر ایس سی/ایس ٹی فلاح و بہبود کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا اور دلت بندھو سمیت مختلف سب پلانز کے فنڈز خرچ نہ کرنے کی نشاندہی کی۔ اس کے برعکس، بھٹی نے کہا کہ موجودہ حکومت ان اسکیموں پر مخلصانہ عمل درآمد کے لیے پرعزم ہے۔
بھٹی نے کہا کہ، “ہم یہاں عوام کو گمراہ کرنے نہیں بلکہ حقیقی ترقی، فلاح و بہبود اور مالیاتی نظم قائم کرنے آئے ہیں