حیدرآباد: تلنگانہ میں کانگریس حکومت کا طویل انتظار کے بعد عوامی رابطہ پروگرام ‘فیس ٹو فیس وزراء کے ساتھ’ بدھ کے روز دوبارہ شروع ہو گیا، جس کا مقصدPublic Issues عوام، پارٹی کارکنوں اور منتخب نمائندوں کو وزراء کے سامنے براہ راست اپنے مسائل، شکایات اور تجاویز رکھنے کا موقع دینا ہے۔
اندرا بھون میں منعقدہ اس پہلے اجلاس کی قیادت وزیر ٹرانسپورٹ پونم پربھاکر نے کی، جنہوں نے صبر و تحمل کے ساتھ درخواستیں وصول کیں اور زمین سے متعلق تنازعات، بزرگ شہریوں کی فلاح، روزگار کے مطالبات اور پارٹی کے اندرونی امور جیسے معاملات پر عوام کی بات سنی۔ یہ پروگرام کچھ وجوہات کے باعث عارضی طور پر معطل ہو گیا تھا، مگر اب پردیش کانگریس کمیٹی کی صدر اور آل انڈیا کانگریس انچارج میناکشی نٹراجن کی ہدایت پر دوبارہ شروع کیا گیا ہے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پونم پربھاکر نے کہا کہ یہ پہل کانگریس حکومت کی اُس عہد بندی کا حصہ ہے جس کا مقصد نچلی سطح سے عوامی مسائل کو سمجھنا اور ان کا حل نکالنا ہے۔ ان کے مطابق، یہ وہ مقام ہے جہاں عوام بولیں گے اور وزراء سنیں گے۔ ہمارا ہدف بالکل واضح ہے—جوابدہی اور عملی اقدام۔
انہوں نے گاندھی بھون کو پارٹی کے لیے ایک روحانی مقام قرار دیا اور کہا کہ جیسے ہر گاؤں میں ہنومان مندر ہوتا ہے، ویسے ہی ہر گاؤں میں ایک اندرامّا ں ہاؤس ہونا چاہیے۔ ہم ایک بار پھر اسی وژن پر کام کر رہے ہیں۔
سیاسی محاذ پر پونم پربھاکر نے بی آر ایس قیادت پر شدید تنقید کی اور کہا کہ شکست کے بعد وہ صرف ڈرامے کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کویتا کی سرگرمیاں محض سیاسی بقا کی کوشش ہیں، جب کہ کے ٹی آر کے بیانات کانگریس حکومت پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتے۔
بی آر ایس کی تنقید پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ پارٹی اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کے مطابق، کے سی آر نے عوامی دولت کو ایسے بہایا جیسے پانی نالے میں بہتا ہے۔ اب وہ احتساب سے خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گھوش کمیشن کو کسی کو بھی طلب کرنے کا اختیار ہے۔
پونم نے خبردار کیا کہ ترقی کے نام پر فریب بیچنے والے احتساب سے بچ نہیں سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کی سرخیاں حاصل کرنے کے لیے لکھی گئی چٹھیوں سے ہماری حکمرانی کی سمت تبدیل نہیں ہوگی۔
آخر میں انہوں نے کانگریس کارکنوں اور عوام سے اپیل کی کہ وہ اس پلیٹ فارم کا بھرپور استعمال کریں۔ ان کے مطابق، یہ صرف ایک فورم نہیں بلکہ حقیقی حل کے لیے ایک تیز رفتار راستہ ہے۔ جنہوں نے پسینے اور جدوجہد سے یہ حکومت بنائی، ان کی آواز سب سے پہلے سنی جانی چاہیے۔