حیدرآباد: کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے قومی سکریٹری کے نارائنہ نے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی (ایچ سی یو) کی اراضی کو فروخت کرنے کے حکومت کے منصوبے پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ دہلی میں جمعہ کے روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا حکومت زمینوں کے معاملے میں ان کی رائے پر غور کرے گی یا اسے نظر انداز کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنی رائے ضرور دیں گے، لیکن اس بات کا کوئی یقین نہیں کہ حکومت سنجیدگی سے اس پر توجہ دے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ سیاسی دوستی اور اتحاد الگ معاملات ہیں، اور موجودہ اراضی تنازع کو ان سے الگ رکھا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں نہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے نہ دشمن۔
نارائنہ نے بتایا کہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور حکومت میں ایچ سی یو کو یہ زمین تعلیمی مقاصد کے لیے الاٹ کی گئی تھی۔ تاہم اب جب کہ اس اراضی کی قیمت میں زبردست اضافہ ہوا ہے، کئی عناصر ان زمینوں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید یاد دلایا کہ سابق وزیر اعلیٰ وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے دور میں کیئر ہاسپٹل کی انتظامیہ نے ان زمینوں پر اسپتال قائم کرنے کی تجویز دی تھی، لیکن اس وقت بھی واضح کر دیا گیا تھا کہ ان زمینوں کو صرف تعلیم کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان زمینوں کو فروخت کرنے کے بجائے تعلیمی ڈھانچے کی توسیع کے لیے استعمال کیا جائے، کیونکہ آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن زمین کی مقدار محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاہے سابق حکومتوں نے ایسی پالیسی اپنائی ہو، موجودہ حکومت کو اس غلطی کو دہرانے سے گریز کرنا چاہیے۔
نارائنہ نے کہا کہ جامعہ کی زمین کو تجارتی مفاد کے لیے دیکھنا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر طلبہ متاثر ہو رہے ہوں اور تعلیمی زمینیں بیچی جا رہی ہوں تو کیا وہ خاموش رہیں گے؟ انہوں نے مزید کہا کہ وقف بل کی منظوری ملک کے سیکولر نظام کے لیے ایک سیاہ دن کی علامت ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو “بلڈوز” کیا گیا، اور دستور کی بالادستی کو کمزور کر دیا گیا۔ اگرچہ بل پارلیمنٹ سے منظور ہو چکا ہے، لیکن انہوں نے اعلان کیا کہ ان کا احتجاج باہر جاری رہے گا۔