حیدرآباد میں آتشزدگی، غیرقانونی تعمیرات بےقابو | Hyderabad

Hyderabad

حیدرآباد: Hyderabad میں ایک کے بعد ایک حادثہ، اور ہر واقعہ میں جانوں کا ضیاع — لیکن نہ سرکاری محکمے حرکت میں آتے ہیں، نہ شہری سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ آگ، عمارتیں گرنے کے واقعات اور دیگر سانحات کا سلسلہ جاری ہے، مگر حفاظت کے اصولوں کی خلاف ورزی معمول بن چکی ہے۔

اتوار کو گلزار حوض میں پیش آئے ہولناک آتشزدگی کے واقعے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ شہر میں غیرقانونی تعمیرات اور بجلی کے غیر محفوظ انتظامات کس قدر جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔ صرف 77 گز کے پلاٹ پر تعمیر کی گئی G+2 منزلہ عمارت میں 14 اے سی یونٹس نصب تھے، جہاں نہ بوجھ برداشت کرنے کی گنجائش کا خیال رکھا گیا، نہ وینٹیلیشن کا۔ آگ کا آغاز شارٹ سرکٹ سے ہوا، جس نے ایک ہی خاندان کی تین نسلوں کو نگل لیا۔

یہ کوئی تنہا واقعہ نہیں۔ تعمیراتی اصولوں کے مطابق، 50 مربع گز سے کم رقبے پر صرف ایک منزل کی اجازت ہوتی ہے، جس کے لیے میونسپل حکام سے پیشگی منظوری اور مکمل نقشہ جمع کرنا لازم ہے۔ لیکن شہر میں متعدد مقامات پر اس قاعدے کو نظر انداز کر کے کئی منزلہ غیرقانونی عمارتیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔

مدھاپور کے صدیق نگر میں ایک چھوٹے پلاٹ پر غیرقانونی طور پر تعمیر کی گئی چار منزلہ عمارت اس کی مثال ہے۔ پڑوسیوں کی شکایات کے باوجود کوئی کارروائی نہ کی گئی، یہاں تک کہ برابر میں جاری تعمیراتی کام نے اس عمارت کی بنیاد کو ہلا دیا۔ تب جا کر جی ایچ ایم سی نے حرکت میں آ کر 50 افراد کو نکالا اور عمارت کو منہدم کیا۔ وہ بھی آخری لمحے پر۔

اعداد و شمار کے مطابق، جی ایچ ایم سی ہر سال تقریباً 12,000 بلڈنگ پرمٹس جاری کرتا ہے، جن میں سے نصف سے زائد میں قواعد کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ سب سے عام خلاف ورزی “سیٹ بیک” کی ہوتی ہے، جس میں عمارتوں کے درمیان لازمی فاصلہ ختم کر دیا جاتا ہے، اور جب آگ لگتی ہے تو فرار کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔

گلزار حوض کی عمارت تقریباً 120 سال پرانی تھی، جس میں نہ وائرنگ کا نیا نظام نصب تھا، نہ اے سی کی تنصیب محفوظ طریقے سے کی گئی تھی۔ شارٹ سرکٹ نے محض چند لمحوں میں 17 جانیں لے لیں۔

اسی طرح مارچ 2023 میں سکندرآباد کے سوپنالوک کمپلیکس میں بھی آگ لگنے سے چھ ملازمین دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔ پانچویں منزل پر لگی آگ کے وقت ایمرجنسی سیڑھیاں کوڑا کرکٹ سے بھری ہوئی تھیں، فرار کی کوئی راہ نہ تھی۔

یہ سب واقعات ایک ہی پیغام دیتے ہیں: حفاظت کے اصولوں کو نظر انداز کرنا، سرکاری اداروں کی بےحسی، اور شہریوں کی لاپرواہی — یہ سب مل کر حیدرآباد کو آئے دن نئے سانحات کا شکار بنا رہے ہیں۔ “کیا فرق پڑتا ہے” جیسا رویہ اب جان لیوا بن چکا ہے۔

Exit mobile version