تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے اہم شہر حیدرآباد، اپنی مخصوص طرز زندگی اور روایتی ملبوسات کے لیے مشہور ہے۔ یہاں کے باشندے خاص طور پر خواتین ملبوسات میں روایتی اور حسبِ خواہش ڈیزائن کو زیادہ پسند کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد میں لیڈیز ٹیلرنگ (خیاطی) کا رجحان ریڈی میڈ گارمنٹس انڈسٹری پر حاوی رہا ہے۔حیدرآباد میں لیڈیز ٹیلرنگ نے ریڈی میڈ گارمنٹس انڈسٹری کو کس طرح پیچھے چھوڑ دیا، خاص طور پر رمضان عید کے لیے خواتین لیڈیز ٹیلر کے پاس کپڑے سلوانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ آئیے جانتے ہیں، وہ کون سے عوامل ہیں جو اس کامیابی کی وجہ بنے۔
ریڈی میڈ انڈسٹری کی ناکامی کی وجوہات
لمیٹیڈ ڈیزائنس: ریڈی میڈ ملبوسات میں مخصوص ڈیزائن ہوتے ہیں، جو ہر فرد کی پسند سے مطابقت نہیں رکھتے۔
ناقص فٹنگ: اکثر خواتین کو ریڈی میڈ ملبوسات میں جسمانی ساخت کے مطابق صحیح فٹنگ نہیں ملتی۔
مہنگائی: برانڈیڈ ملبوسات کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر خواتین ٹیلرنگ کو ترجیح دیتی ہیں۔
مقامی مارکیٹ سے ہم آہنگی کی کمی: زیادہ تر ریڈی میڈ گارمنٹس دیگر شہروں یا ممالک سے درآمد کیے جاتے ہیں، جن کے ڈیزائن اور معیار حیدرآباد کی خواتین کے ذوق سے مطابقت نہیں رکھتے۔
ثقافتی اور روایتی رجحانات
حیدرآباد کی خواتین رمضان عید کے لیے زیادہ تر روایتی اور نفیس ملبوسات کو ترجیح دیتی ہیں، جیسے کہ شلوار قمیص، غرارہ، شرارہ، اور لانگ فراکس، جو اکثر مخصوص کٹنگ اور ڈیزائن کے ساتھ سلوائے جاتے ہیں۔ ریڈی میڈ ملبوسات میں وہ جدت اور روایتی ٹچ نہیں ملتا، جو ایک ماہر ٹیلر سے حاصل ہو سکتا ہے۔

حسبِ منشا ڈیزائننگ اور فٹنگ
ریڈی میڈ کپڑوں کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ یہ عمومی سائز میں دستیاب ہوتے ہیں، جبکہ ہر خاتون کی جسمانی ساخت مختلف ہوتی ہے۔ لیڈیز ٹیلرز ہر کسٹمر کی پسند، ماپ اور انداز کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے لیے خاص لباس تیار کرتے ہیں، جو ایک بڑا پلس پوائنٹ ہے۔شہر حیدرآباد کے علاقے وجئے نگر کالونی میں واقع’اسٹائل لیڈیز ٹیلر اینڈ بوٹیک‘ کے پروپرائٹر شیخ زبیر نے بتایا کہ لیڈیز ٹیلروں کو خواتین کی جانب سے ترجیح دیے جانے کی سب سے بڑی اہم وجہ یہی ہے کہ سلائے ہوئے کپڑے خواتین کے لیے فٹ بیٹھتے ہیں جب کہ ریڈی میڈ ملبوسات 99 فیصد خواتین کے لیے فٹ نہیں ہوتے، اس لیے ریڈی میڈ کپڑے خریدنے کے باوجود انہیں آلٹر کروانے کے لیے انہیں لیڈیز ٹیلر کے پاس آنا ہی پڑتا ہے۔
خصوصی تقریبات کے لیے ملبوسات
شادی بیاہ، عید، اور دیگر تقریبات کے موقع پر خواتین اپنی پسند کے مطابق کپڑے سلواتی ہیں، کیونکہ ریڈی میڈ ملبوسات میں ایک جیسے ڈیزائن کئی لوگوں کے پاس ہو سکتے ہیں۔ جبکہ ایک ماہر درزی کسی بھی خاص موقع کے لیے منفرد اور خوبصورت لباس تیار کر سکتا ہے۔ عید پر حیدرآبادی خواتین کی کوئی خاص فرمائش پر انہوں نے بتایا کہ ٹرینڈنگ ملبوسات کا طرز خواتین زیادہ پسند کرتی ہیں لیکن گزشتہ دو تین سالوں سے خواتین میں پاکستانی طرز کے ملبوسات کا کافی کریز ہے۔
حیدرآباد کے مشہور ملے پلی علاقے میں 45 سالوں سے ٹیلرنگ کا تجربہ رکھنے والے ’ماسٹر اسٹیچ زون، لیڈیز ٹیلر‘ کے مالک محمد فیصل کہتے ہیں ایک ماہر ٹیلر سے سلائی کرائے ہوئے کپڑے اور ریڈی میڈ کپڑوں کا تقابل ہوگا تو ماہر لیڈیز ٹیلر کی سلائی سے ہی خواتین خوش ہوں گی، کیونکہ ریڈی میڈ ملبوسات کسی بھی خواتین کے لیے فٹ نہیں ہوتے۔ حیدرآباد میں ریڈی میڈ کپڑوں کی قیمتیں عام طور پر زیادہ ہوتی ہیں، جبکہ ان کا معیار ہمیشہ بہترین نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس، لیڈیز ٹیلر ایک مناسب قیمت میں اعلیٰ معیار کا کپڑا اور بہترین سلائی فراہم کرتے ہیں، جس سے خواتین کی توجہ زیادہ تر ان کی طرف رہتی ہے۔
پرانے شہر حیدرآباد میں خواتین چلا رہی ہیں سلائی سینٹر
رمضان کے دوران لیڈیز ٹیلرس کی مصروفیت اور اس سے جڑی معلومات حاصل کرنے کے لیے جب ہم نے پرانے شہر حیدرآباد کا دورہ کیا تو ہمیں کئی حیران کردینے والی معلومات حاصل ہوئیں۔ پرانے شہر حیدرآباد کے تجارتی مرکز گلزار حوض سے تھوڑی ہی دور پر واقع مٹی کا شیر علاقے میں چند خواتین ایسی بھی ہیں لیڈیز ٹیلر کے طور پر کام کررہی ہیں۔ ان خواتین نے بتایا کہ ٹیلر کا پیشہ خواتین کے لیے کافی اہمیت کا حامل ہیں۔ بہت سی خواتین ایسی ہیں جنہیں گھروں میں سلائی کا تربیت ملی لیکن وہ گھر سے ہی آس پڑوس کے کپڑوں کی سلائی کرتی ہیں۔ رمضان کے مہینے میں محلے میں واقع ایسے سلائی سینٹرس جہاں صرف خواتین کام کرتی ہیں، وہاں پر رمضان کے دنوں میں ایسی گھریلو سلائی کرنے والی خواتین کی کافی اہمیت ہوتی ہیں، کیونکہ رمضان میں کام کا بوجھ بڑھ جاتا ہے اور لیڈیز ٹیلر کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔
مقامی ٹیلر انڈسٹری کی مضبوط جڑیں
حیدرآباد میں خاندانی طور پر چلنے والے ٹیلرنگ کے کاروبار کئی دہائیوں سے قائم ہیں۔ ان کی مہارت، تجربہ، اور قابلِ بھروسہ خدمات نے انہیں ریڈی میڈ ملبوسات کے مقابلے میں زیادہ مقبول بنا دیا ہے۔حالیہ برسوں میں، آن لائن ٹیلرنگ سروسز بھی مقبول ہو رہی ہیں، جہاں خواتین اپنے ناپ اور ڈیزائن کی تفصیلات آن لائن فراہم کر کے اپنی مرضی کا لباس سلواتی ہیں۔ یہ سہولت ریڈی میڈ فیشن کو مزید پیچھے دھکیل رہی ہے۔
پرانے شہر حیدرآباد کے علاقے نورخاں بازار میں واقع ’ڈریم لیڈیز ٹیلر‘ میں چند خواتین سلائی کا کام کرتی ہوئی نظر آئیں،انہی میں سے ایک انیس فاطمہ نے بتایا کہ اس علاقے میں رمضان کے دوران کوئی خاص تبدیلی نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ رمضان کے علاوہ رجب میں بھی یہاں پر کام کافی بڑھ جاتا ہے۔ انہوں نے حیران کرنے والی بات بتاتے ہوئے کہا کہ نئے شہر کے برعکس پرانے شہر میں ان کے پاس سلائی کے دام میں کمی ہیں۔ سادہ لباس 400 روپے میں، استر کے ملبوسات کی سلائی 550 روپے جب کہ ڈیزائنر کپڑوں کی سلائی، اس کے ڈیزائن پر منحصر ہوتی ہے۔
رمضان کے دوران عبادات اور کام میں توازن کی برقراری ایک چیلنج
ہم نے شہر حیدرآباد کے متعدد لیڈیز ٹیلرس سے بات کی اور ان سے جب پوچھا کہ وہ کس طرح رمضان کے دوران عبادات اور کام میں توازن برقرار رکھتے ہیں؟ اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک چیلنج ہے۔ ہم حتی الامکان کوشش کرتے ہیں ماہ رمضان میں زیادہ سے عبادت کرسکیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سال کے گیارہ مہینوں میں جتنا سلائی کا کام نہیں ہوتا، ماہ رمضان کے ایک مہینے میں ہوتا ہے۔ اس کے لیے ایک شیڈول بنواتے ہیں۔ سب سے پہلے نماز فجر کے بعد سے صبح 10بجے تک آرام کرلیتے ہیں، اور پھر صبح 10 بجے کے بعد سے رات دو بجے تک کام جاری رہتا ہے۔ اس درمیان نمازوں کی ادائیگی کرتے ہیں، اور پھر بعد از افطار تراویح کے لیے وقفہ درکار ہوتا ہے۔ کیاعید کے دن بھی سلائی کا کام ہوتا ہے؟ اس سوال پر انہوں نے بتایا کہ کوشش یہی ہوتی ہے کہ عید تک گاہک کا سارا کام مکمل کریں، اس کے لیے 20 رمضان کے بعد سے ہی آرڈر لینے میں احتیاط برتی جاتی ہے، ایسا نہ ہوں کہ عید آجائے اور گاہک کا آرڈر پورا نہ ہو۔
حیدرآبادی نوجوان لیڈیز ٹیلر کو ایک پیشہ ور صنعت کے طور پر دیکھتے ہیں؟
محمد فیصل کا کہنا ہے کہ آج کے نوجوان، لیڈیز ٹیلر پیشے کی طرف دھیرے دھیرے راغب ہورہے ہیں، لیکن اب بھی وہ دیگر ریاستوں کے نوجوانوں سے پیچھے ہیں۔ انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ حیدرآباد میں جتنے بھی بوٹیک یا لیڈیز ٹیلرنگ کے دوکانات ہیں، وہاں کاریگر کے طور پر کام کرنے والے ٹیلرس میں 99 فیصد دیگر ریاستوں سے ہوتے ہیں۔ حیدرآباد میں رمضان کے دوران لیڈیز ٹیلروں کی ڈیمانڈ اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ سلائی کا کام سو فیصد بڑھ جاتا ہے جب کہ مقامی ٹیلر انتہائی کم تعداد میں ہیں۔ وہیں، بیرونی ریاستوں جیسے اترپردیش، بہار، مغربی بنگال، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر سے آنے والے لیڈیز ٹیلر کو زیادہ اجرت دینی پڑی ہے۔
لیڈیز ملبوسات کے الگ الگ ڈیزائن کی مختلف فیس
حیدرآباد میں خواتین روزانہ پہننے کے لیے زیادہ تر سادہ شرٹ سلوار کا استعمال کرتے ہیں، جس کی سلائی 500سے 550روپے ہے۔ جب کہ استر کے کپڑوں کی سلائی کے لیے لیڈیز ٹیلر 700 سے 1000 روپے تک چارج کرتے ہیں۔ رمضان میں زیادہ تر خواتین شرارہ، غرارہ کو پسند کرتی ہیں، حالانکہ سادہ سلوارسوٹ کو بھی ترجیح دیتی ہیں۔
لیڈیز ٹیلرنگ انڈسٹری کس طرح مزید بہتر ہوسکتی ہے؟
ٹیلرنگ انڈسٹری کو مزید جدید سہولیات جیسے آن لائن آرڈر اور ہوم ڈلیوری سروسز متعارف کرانی چاہئیں تاکہ وہ مزید ترقی کر سکیں۔
فٹنگ اور کسٹمائزیشن کے مسائل حل کرنے کے لیے “آلٹریشن سروسز” زیادہ سے زیادہ فراہم کرنی چاہئیں۔
نوجوانوں کو اس پیشے سے جوڑنے کے لیے خصوصی تربیتی کیمپ منعقد کیے جائیں تاکہ اس انڈسٹری میں پیشہ ور ماہرٹیلرس کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔
ظاہر ہے کہ حیدرآباد میں لیڈیز ٹیلرنگ انڈسٹری کو ریڈی میڈ گارمنٹس کے مقابلے میں واضح برتری حاصل ہے۔ اگرچہ ریڈی میڈ ملبوسات کا ایک محدود مارکیٹ شیئر موجود ہے، لیکن زیادہ تر خواتین آج بھی اپنی پسند اور معیار کے مطابق کپڑے سلوانے کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔