حیدرآباد: شہر کے قریب کنچہ گچی باولی میں واقع 400 ایکڑ اراضی کی نیلامی کا معاملہ شدید تنازعہ کا شکار ہو گیا ہے۔ یہ اراضی حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی (ایچ سی یو) کے قریب واقع ہے اور اس پر جنگلاتی زمین ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے وفاقی وزیر بنڈی سنجے کمار نے ریاستی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
بنڈی سنجے نے الزام عائد کیا ہے کہ ریاستی حکومت کی جانب سے اس زمین کی نیلامی، سپریم کورٹ کے ان احکامات کی خلاف ورزی ہے جن کے مطابق مرکز سے منظوری کے بغیر جنگلات کی صفائی اور درختوں کی کٹائی ممنوع ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، اور واٹ فاؤنڈیشن کی درخواست پر عدالت نے ریاستی حکومت کو 7 اپریل تک جوابی حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔
تاہم، سنجے کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے پہلے ہی اس اراضی کی صفائی شروع کر دی ہے، درختوں اور قدرتی نباتات کو کاٹا جا رہا ہے، جو نہ صرف ماحولیاتی ضوابط کی خلاف ورزی ہے بلکہ توہین عدالت کے مترادف ہے۔
انہوں نے ریاستی حکومت پر آمدنی کے لالچ میں ماحولیات کو نقصان پہنچانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی نے ماضی میں بی آر ایس حکومت کے ایسے اقدامات کی مخالفت کی تھی، مگر اب وہی پالیسیاں اپنا رہے ہیں۔ انہوں نے نیلامی کو سیاسی موقع پرستی کی انتہا قرار دیتے ہوئے فوری طور پر اسے روکنے کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ اگر یہ عمل جاری رہا تو عوامی غصہ ابھرے گا۔
ریاستی موقف: اراضی سرکاری ہے، ترقیاتی مقاصد کے لیے مخصوص
اس تنازعے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے تلنگانہ اسٹیٹ انڈسٹریل انفراسٹرکچر کارپوریشن (ٹی ایس آئی آئی آئی سی) نے وضاحت کی کہ کنچہ گچی باولی کی 400 ایکڑ اراضی قانونی طور پر حکومت کی ملکیت ہے اور یہ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کی اراضی میں شامل نہیں۔ کارپوریشن کے مطابق اس زمین کی ملکیت عدالتی کاروائیوں کے ذریعے ثابت ہو چکی ہے۔
ٹی ایس آئی آئی آئی سی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس زمین پر کوئی جھیل موجود نہیں، اور علاقے کی قدرتی چٹانی ساخت جیسے ‘مشروم راکس’ کو محفوظ رکھا جائے گا۔ ادارے نے ریاستی حکومت کی ماحولیاتی تحفظ سے وابستگی کا اعادہ بھی کیا۔
طلبہ کا احتجاج اور عوامی تشویش
حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود، اس اراضی کی صفائی کے خلاف اتوار کے روز ایچ سی یو کے طلبہ نے احتجاج کیا، جس پر سائبرآباد پولیس نے کئی طلبہ کو حراست میں لے لیا۔ احتجاج کرنے والوں کا کہنا تھا کہ یہ علاقہ جنگلاتی زون میں آتا ہے اور اس کی تبدیلی ماحولیاتی توازن کو شدید نقصان پہنچائے گی۔
عینی شاہدین کے مطابق صفائی کے عمل کو تیز کرنے کے لیے راتوں رات کھدائی کرنے والی مشینوں کی تعداد 40 تک بڑھا دی گئی، جس سے عوامی تشویش مزید بڑھ گئی ہے۔
کنچہ گچی باولی اراضی تنازعہ اب محض قانونی معاملہ نہیں بلکہ سیاسی اور ماحولیاتی کشمکش کی شکل اختیار کر چکا ہے، اور آنے والے دنوں میں اس پر مزید گرما گرمی متوقع ہے۔