حیدرآباد: آپریشن سندور کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان مکمل جنگی حالات پیدا ہو چکے ہیں، اور اس کے اثرات سرحدوں سے باہر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ حیدرآباد کی مشہور و معروف Karachi Bakery بھی ان حالات کی لپیٹ میں آ گئی ہے، جہاں ایک بار پھر اس کے نام کو لے کر تنقید کی جا رہی ہے۔
بھارت بھر میں عثمانیہ بسکٹ اور کیک کے لیے مشہور یہ بیکری اب سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں نشانے پر ہے۔ کئی افراد نے تازہ کشیدگی کے بعد بیکری کا نام بدلنے کا مطالبہ کیا ہے، کیونکہ اس کا تعلق پاکستان کے ساحلی شہر کراچی سے ظاہر ہوتا ہے۔
اس تنقید کے جواب میں بیکری انتظامیہ نے اپنے تمام اسٹورز پر بھارتی پرچم لہرا دیا ہے اور “ہم فخر سے بھارتی ہیں” کے بورڈز آویزاں کیے ہیں۔ ان بورڈز پر بیکری کی تاریخ بھی درج ہے، جس میں واضح کیا گیا ہے کہ نام کا تعلق محض تاریخی پس منظر سے ہے، اس کا کوئی سیاسی مفہوم نہیں۔
کراچی بیکری کا قیام 1953 میں سندھی ہندو پناہ گزین خان چند رمنانی نے کیا تھا، جو 1947 کی تقسیم کے دوران پاکستان سے حیدرآباد منتقل ہوئے تھے۔ پہلی دکان معظم جاہی مارکیٹ میں مشہور سنہا بیکری کے قریب قائم کی گئی تھی۔ آج اس بیکری کی تقریباً 20 شاخیں حیدرآباد میں ہیں، اور بھارت کے مختلف شہروں کے علاوہ بیرون ملک بھی اس کا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔
تاہم، بھارت اور پاکستان کے درمیان ہر کشیدہ مرحلے میں بیکری کے نام پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ پہلگام دہشت گرد حملے کے بعد بھی اسی طرح کی آوازیں اٹھ چکی تھیں۔ اب ایک بار پھر سوشل میڈیا پر اس کے خلاف پوسٹس وائرل ہو رہی ہیں جن میں اسٹورز کے باہر ترنگا اور حب الوطنی کے بینرز دکھائے جا رہے ہیں۔
عوامی جذبات اور وقتاً فوقتاً ملنے والی دھمکیوں کے پیش نظر بیکری انتظامیہ محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ وہ ایک طرف اپنے بھارتی تشخص کا اعادہ کر رہی ہے، تو دوسری طرف کوشش کر رہی ہے کہ اس برانڈ کو سیاسی تنازعات سے دور رکھا جائے، جن سے اس کا کوئی ارادہ یا تعلق کبھی نہیں رہا۔