حیدرآباد: بی آر ایس ایم ایل سی کلواکنٹلا کویتا نے ریاستی حکومت پر سخت تنقید کی ہے، جس میں انہوں نے تلنگانہ کی ثقافتی شناخت کی نظراندازی، کسانوں کی مدد سے متعلق نامکمل اسکیموں، اور فلاحی پروگراموں کے ناقص نفاذ پر سوالات اٹھائے ہیں۔
ثقافتی شناخت اور تلنگانہ کی شخصیات کی نظراندازی
کویتا نے تلنگانہ کی ثقافتی وراثت کے ساتھ حکومت کے رویے پر مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ “جیا جیا ہے تلنگانہ” ترانے کے لیے تلنگانہ کے موسیقار کے بجائے ایم ایم کیروانی سے موسیقی کیوں ترتیب دلوائی گئی؟ انہوں نے الزام لگایا کہ تلنگانہ کی شناخت کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور شاعر دشارتی کرشنا ماچاریہ کے صد سالہ تقریبات کے انعقاد میں ناکامی پر افسوس کا اظہار کیا۔
کسانوں کے مسائل اور آبپاشی کے خدشات
کویتا نے گورنر تملی سائی سوندریہ راجن کے اس بیان کا حوالہ دیا کہ تلنگانہ میں 2.6 کروڑ ٹن دھان پیدا ہوا۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا کالیشورم پروجیکٹ اس کامیابی میں شامل نہیں؟ انہوں نے نشاندہی کی کہ کئی کسان پانی کی کمی اور نامکمل قرض معافی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ انہوں نے حکومت پر کسانوں کے لیے بونس کی عدم فراہمی اور ناگرجنا ساگر کو تلنگانہ کے کنٹرول میں نہ لانے پر بھی تنقید کی۔
خواتین کے لیے نامکمل وعدے
کویتا نے حکومت پر خواتین کی فلاح و بہبود سے متعلق اسکیموں کے نفاذ میں ناکامی پر سوالات اٹھائے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ حکومت نے ₹2,500 اور ایک تولہ سونافراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ اب تک پورا نہیں ہوا۔ انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ تمام مستحقین کو مفت گیس کنکشن نہیں مل رہے۔
صحت اور پسماندہ طبقات کی نمائندگی
بی آر ایس ایم ایل سی نے دعویٰ کیا کہ پچھلی حکومت نے ہر ضلع میں میڈیکل کالج قائم کیے تھے، لیکن موجودہ حکومت سرکاری اسپتالوں کو نظرانداز کر رہی ہے ۔ انہوں نے حکومت پر پسماندہ طبقات (بی سی) کمیشن کی رپورٹ اور ذات پات کی مردم شماری کے اعداد و شمار جاری نہ کرنے پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ شمیم اختر رپورٹ کو اسمبلی میں پیش کیا جائے۔