حیدرآباد: تلنگانہ جنا سمیتی کے سربراہ پروفیسر کودنڈارام نے سابق بی آر ایس حکومت پر ریاست کو مالی بحران میں دھکیلنے کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق حکومت کے غیر ضروری قرضے لینے کے فیصلے کی وجہ سے تلنگانہ کی معیشت شدید بحران کا شکار ہو گئی ہے۔
موجودہ بجٹ پر بات کرتے ہوئے کودنڈارام نے کہا کہ اس میں پیش کیے گئے اعداد و شمار حقیقت کے قریب ہیں، لیکن قرضوں پر سود کا بوجھ تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ کالیشورم پروجیکٹ پر ہی ریاست کو 12,000 کروڑ روپئے کا سود ادا کرنا پڑ رہا ہے، جبکہ بجلی کے اخراجات پر مزید 12,000 کروڑ روپئے خرچ ہو رہے ہیں۔
پروفیسر کودنڈارام نے کہا کہ موجودہ حکومت بھی تعلیم اور صحت کے شعبے کو نظرانداز کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیگر ریاستیں اپنے بجٹ کا 14.7 فیصد تعلیم پر خرچ کر رہی ہیں، لیکن تلنگانہ اس سطح تک نہیں پہنچ پایا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تلنگانہ کو تعلیم پر خرچ بڑھا کر قومی اوسط کے مطابق کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دیگر ریاستیں اپنے بجٹ کا 6.7 فیصد صحت پر خرچ کرتی ہیں، جبکہ تلنگانہ میں یہ اخراجات کافی کم ہیں، جو عوامی فلاح کے لیے ناکافی ہے۔
کودنڈا رام نے اسٹامپ اور رجسٹریشن سے ہونے والی آمدنی میں 30 فیصد اضافے پر سوال اٹھاتے ہوئے حکومت سے وضاحت طلب کی۔ انہوں نے تعلیم اور صحت کے لیے مزید فنڈز مختص کرنے کا مطالبہ کیا، کیونکہ یہ دونوں شعبے ریاست کی ترقی کے لیے اہم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کمزور طبقات کے لیے مختص 34,000 کروڑروپئے کا مکمل استعمال ہونا چاہیے اور انٹیگریٹڈ اسکولز کے بجٹ میں بھی اضافہ کیا جانا چاہیے۔
آبپاشی منصوبوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تلنگانہ کے قیام کے وقت 33 آبپاشی پروجیکٹس زیر التوا تھے۔ اگر ان پر مناسب فنڈز خرچ کیے جاتے تو یہ منصوبے مکمل ہو چکے ہوتے، لیکن وہ آج بھی نامکمل ہیں۔
انہوں نے کالیشورم پروجیکٹ کی بڑھتی ہوئی لاگت پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کی لاگت 40,000 کروڑ روپئے سے بڑھ کر 1.5 لاکھ کروڑروپئے ہو گئی ، جس کی وجہ سے دیگر آبپاشی منصوبے تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔
انہوں نے حکومت سے تومیڈی ہٹّی پروجیکٹ کی تکمیل کا مطالبہ کیا اور کالیشورم پروجیکٹ کی جلد بازی میں مرمت سے گریز کرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ جامع تکنیکی رپورٹ کے بغیر سرمایہ کاری کرنا خطرناک اور بے سود ہوگا۔
پروفیسر کودنڈارام نے مرکزی حکومت پر تلنگانہ کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ دیگر ریاستوں کو زیادہ فنڈز دیے جا رہے ہیں، جبکہ تلنگانہ کو صرف 51,000 کروڑروپئے مل رہے ہیں۔ انہوں نے ریاستی حکومت پر زور دیا کہ وہ مرکز سے تلنگانہ کے واجب فنڈز کے حصول پر توجہ دے اور عام عوام پر ٹیکس کا بوجھ نہ ڈالے۔