وزیر جوپلی کرشنا راؤ نے کہا کہ ایس ایل بی سی ٹنل میں پھنسے مزدوروں کے زندہ بچنے کے امکانات کم ہیں۔ انہوں نے بی آر ایس رہنما ہریش راؤ پر اس حادثے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کا الزام عائد کیا اور بی آر ایس کی ناقص کارکردگی پر سوال اٹھایا۔
حیدرآباد: تلنگانہ کے وزیر جوپلی کرشنا راؤ نے کہا ہے کہ ایس ایل بی سی (سری سیلم لیفٹ بینک کینال) ٹنل میں پھنسے مزدوروں کے زندہ بچنے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ جمعہ کے روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے، انہوں نے ریسکیو آپریشن کی تازہ صورتحال پر مایوس کن تبصرہ کیا اور بی آر ایس رہنما ہریش راؤ کو سانحے پر سیاست کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
جوپلی کرشنا راؤ نے ہریش راؤ پر الزام لگایا کہ وہ اس المناک حادثے کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ بی آر ایس حکومت نے اپنے دس سالہ دور اقتدار میں ایس ایل بی سی منصوبے کو مکمل کیوں نہیں کیا؟
“دس سالوں تک بی آر ایس نے ایس ایل بی سی منصوبے کو زیر التوا کیوں رکھا؟ انہوں نے صرف 200 کلومیٹر تک سرنگ کھودی اور باقی کام چھوڑ دیا؟ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں اس منصوبے سے کم فائدہ ہونے کا خدشہ تھا، یا وہ اس لیے رک گئے کہ اسے مکمل کرنے کا کریڈٹ کانگریس کو ملتا؟” جوپلی نے سوال کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بی آر ایس ہمیشہ حادثات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی ہے اور اسے ایس ایل بی سی منصوبے پر تبصرہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ماضی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے، جپلی نے یاد دلایا کہ جب پالامورو-رنگا ریڈی پروجیکٹ کے حادثے میں چھ افراد جاں بحق ہوئے تھے، تب نہ کے سی آر اور نہ ہی ہریش راؤ جائے حادثہ پر پہنچے۔ اسی طرح، کونڈاگٹو بس حادثے میں 70 جانیں ضائع ہوئیں، مگر بی آر ایس قیادت غائب رہی۔
ایس ایل بی سی ٹنل حادثے کے حوالے سے جوپلی نے ایک تلخ حقیقت بیان کی: “کسی معجزے کے بغیر، سرنگ میں پھنسے آٹھ افراد کے بچنے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ ریسکیو آپریشن مکمل ہونے میں مزید دو دن لگ سکتے ہیں، اور اگر کمپنی نے بروقت حکام کو اطلاع نہ دی ہوتی، تو ہلاکتوں کی تعداد 40 تک پہنچ سکتی تھی۔
ہریش راؤ کی جانب سے بی آر ایس چھوڑ کر کانگریس میں شمولیت پر کی گئی تنقید کا جواب دیتے ہوئے، جپلی نے کہا کہ انہوں نے اس لیے پارٹی بدلی کیونکہ بی آر ایس حکومت تلنگانہ کے شہداء اور عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اتری۔ انہوں نے ہریش راؤ کو مشورہ دیا کہ وہ “نعشوں پر سیاست” کرنے کے بجائے حقیقی طرز حکمرانی پر توجہ دیں۔