حیدرآباد:
مس ورلڈ کے مقابلے میں شامل 109 ممالک کی حسیناؤں نے منگل کی شام چار صدیوں پر محیط تاریخ کو نئی روشنی سے منور کر دیا، جب چارمینار کی پتھریلی گلیوں میں ان کے قدموں کی آہٹ گونج اٹھی۔ پرانے شہر کی اس تاریخی علامت کو ایک خواب ناک منظر میں بدل دیا گیا، جہاں ریڈ کارپٹ استقبال، موسیقی اور کیمروں کی چمک نے ماحول کو عالمی رنگ بخشا۔
یہ تاریخی لمحہ شام 5 بجے عربی مرفا ڈرمز کی گونج کے ساتھ شروع ہوا۔ مقابلے میں شامل خواتین کا استقبال پھولوں سے کیا گیا اور چارمینار کے سامنے مکمل فوٹو شوٹ کا اہتمام کیا گیا۔ ماہرینِ آثار قدیمہ اور سرکاری گائیڈز نے انہیں چارمینار کی تاریخ، طرزِ تعمیر اور ثقافتی اہمیت سےواقف کروایا۔
تقریباً 30 منٹ کی سیر کے بعد شرکاء نے پیدل ورثے کی سیر شروع کی—چارمینار سے ہوتے ہوئے چوڑی بازار اور پھر چومحلہ پیلس تک۔ یہ 40 منٹ کا ثقافتی سفر شہر کے مشہور لڈ بازار کی چوڑیوں اور موتیوں کی چمک سے بھرپور تھا۔
اس شام کا اہم منظر چوڑی تیارکرنے والے کاریگاروں کی ہنرمندی تھی۔ چند حسینائیں چوڑیوں کی تیاری کا عمل دیکھنے رک گئیں۔ دکانداروں نے خوشی خوشی انہیں تحائف دیے اور پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ مہمانوں پر پھول نچھاور کیے گئے اور محبت بھرا پیغام دیا گیا کہ وہ حیدرآباد کی ثقافت کی کہانیاں اپنے ملکوں تک لے جائیں۔
Miss World Contestants Participated in the #HeritageWalk at #Charminar @TelanganaCMO @revanth_anumula @jupallyk_rao @TelanganaCS @jayesh_ranjan @Ramesh_R_Patel @TravelTelangana @MissWorldLtd#TelanganaTourism #IPRTelangana #MissWorldTelangana #MissWorld2025Hyderabad… pic.twitter.com/p5De8OB9sJ
— Jacob Ross (@JacobBhoompag) May 13, 2025
راستوں کو کلیئر کر دیا گیا تھا اور پولیس نے ہجوم کو دور رکھا تاکہ یہ تاریخی سیر بغیر کسی رکاوٹ کے مکمل ہو سکے۔ چارمینار کے سامنے کرغزستان، آرمینیا، قازقستان، بنگلہ دیش، ترکی، جاپان، ویتنام، آسٹریلیا، چین اور منگولیا سمیت کئی ممالک کی حسینائیں دیکھی گئیں، جنہوں نے پرانے شہر کے مناظر میں عالمی رنگ بھر دیے۔
فوٹو شوٹ کے لیے سخت قواعد مقرر تھے۔ حریف خواتین کو براعظمی خطوں کی بنیاد پر گروپس میں تقسیم کیا گیا—امریکہ-کریبیئن، افریقہ، یورپ، ایشیا-اوشیانا—اور لباس کا انتخاب بھی مخصوص تھا: لمبے شام کے گاؤن، کندھے اور کہنیاں ڈھکی ہوئی، صرف فلیٹ جوتے۔
یہ واک صرف تصویروں کے لیے نہیں تھی، بلکہ ایک مکمل ثقافتی تجربہ تھا۔ ان چند لمحوں کے لیے حیدرآباد کا قدیم دل عالمی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو گیا۔