حیدرآباد: سابق وزیر سنگی ریڈی نرنجن ریڈی نے الزام عائد کیا ہے کہ کانگریس حکومت Palamuru project کو دانستہ طور پر نظرانداز کر رہی ہے، حالانکہ اس کا نوے فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔
نرنجن ریڈی نے ایک تفصیلی بیان میں آبپاشی کے وزیر اُتّم کمار ریڈی کے پالمورُو کے دورے کو رسمی کاروائی قرار دیا اور سوال اٹھایا کہ باقی ماندہ کام کی تکمیل میں دو سال کا وقت کیوں درکار ہے، جب کہ اسے فوری طور پر مکمل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی جو خود پالمورُو سے تعلق رکھتے ہیں، اس اہم منصوبے کی تکمیل میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ اپنے ہی علاقے سے بے وفائی نہیں ہے؟
نرنجن ریڈی نے کہا کہ سابق حکومت بی آر ایس کے دور میں چار پمپ ہاؤز، سرنگیں، سرج پول اور سب اسٹیشنز جیسے اہم اجزاء مکمل کیے گئے تھے، اور نرلاپور میں واٹر ٹرائلز بھی انجام دیے گئے تھے۔ ان کے مطابق نارائن پیٹ اور کوڈنگل کے لیے کشش ثقل پر مبنی آبپاشی کے ٹینڈرز منسوخ کرنا اور اس کے بجائے جُرالا سے مہنگے لفٹ اسکیموں کا آغاز کرنا سیاسی تعصب کا مظاہرہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کانگریس حکومت جس Dindi lift scheme پر 1800 کروڑ روپۓ خرچ کرنے جا رہی ہے، اس کے متبادل کے طور پر واٹم ریزروائر سے کشش ثقل کے ذریعہ پانی لانے پر صرف 80 تا 100 کروڑ روپۓ خرچ ہوں گے۔ اس معاملے پر ماہرین کی کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
نرنجن ریڈی نے کرشنا ندی کے پانی کی تقسیم سے متعلق 7 مئی کو ہونے والی میٹنگ میں برجیش کمار ٹریبونل کے احکامات کو تسلیم کرنے کے امکانات پر بھی تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس فیصلے سے کرناٹک کو الماٹی ڈیم کی اونچائی بڑھانے کی اجازت مل سکتی ہے اور 160 ٹی ایم سی پانی ذخیرہ کرنے کا موقع ملے گا، جس سے جُرالا مکمل طور پر خشک ہو سکتا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ تلنگانہ کو اپنے حصے کا پانی حاصل کرنے کے لیے سخت موقف اختیار کرنا چاہیے اور ایسے کسی بھی فیصلے کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے جو ریاست کے مفادات کے خلاف ہو۔
نرنجن ریڈی نے کہا کہ Palamuru project پر اب تک 32,000 کروڑ روپۓ خرچ ہو چکے ہیں اور وزیر نے خود اعتراف کیا ہے کہ نوے فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ باقی کام کی فوری تکمیل سے اس علاقے کو فائدہ پہنچے گا۔ انہوں نے حکومت پر کسانوں کو آبپاشی کی سہولت فراہم نہ کرنے، پیداوار کی خریداری نہ کرنے اور قرض معافی میں ناکامی کے الزامات بھی عائد کیے۔ ان کے مطابق خود کانگریس کے اراکین اسمبلی تسلیم کرتے ہیں کہ وعدہ کردہ قرض معافی کا آدھا حصہ بھی پورا نہیں کیا گیا ہے۔