حیدرآباد: تلنگانہ حکومت کی جانب سے شروع کی جانے والی Rajiv Yuva Vikasam اسکیم کا 2 جون کو تلنگانہ یومِ تاسیس کے موقع پر آغاز ہورہا ہے، جس سے ریاست کے پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے لاکھوں نوجوانوں کو خود کا کاروبار شروع کرنے کا موقع ملے گا۔ ایس سی، ایس ٹی، بی سی اور اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لیے یہ اسکیم صرف ایک قرض نہیں بلکہ ایک نئی زندگی کی شروعات ہے۔
اسکیم کے کامیاب آغاز کو یقینی بنانے کے لیے حکام بھرپور تیاریاں کر رہے ہیں۔ 2 جون کو مستحق نوجوانوں کو قرض منظوری کے خطوط دیے جائیں گے، جب کہ 9 جون تک اسکیم کی باضابطہ عمل آوری جاری رہے گی۔ اس کے بعد 10 سے 15 جون کے درمیان ہر ضلع اور اسمبلی حلقہ کی سطح پر تربیتی کیمپ منعقد کیے جائیں گے، جہاں نوجوانوں کو منتخب پیشوں سے متعلق عملی تربیت فراہم کی جائے گی۔ 16 جون سے منتخب یونٹس کا آغاز کیا جائے گا۔
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، اب تک 16 لاکھ سے زائد نوجوانوں نے اسکیم کے لیے درخواست دی ہے، جن میں سے تقریباً 5 لاکھ اہل امیدواروں کو رواں سال مالی مدد دی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے کانگریس حکومت نے 6,250 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا ہے۔
اسکیم کے تحت مالی امداد میں سبسڈی :
50,000 روپئے تک کے قرض پر 100فیصد سبسڈی
1 لاکھ تک کے قرض پر 90فیصد سبسڈی
2 لاکھ تک کے قرض پر 80فیصد سبسڈی
4 لاکھ تک کے قرض پر 70فیصد سبسڈی دی جائے گی
پہلے مرحلے میں 1 لاکھ روپئے تک کے یونٹس کو 2 جون کو باضابطہ آغاز کا موقع دیا جائے گا۔
تاہم اسکیم سیاسی تنازعات سے خالی نہیں رہی۔ بی آر ایس کی رکن قانون ساز کونسل کے کویتا سمیت دیگر قائدین نے ’راجیو یووا وکاسم‘ کے نام پر اعتراض ظاہر کرتے ہوئے سوال کیا کہ سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کا تلنگانہ سے کیا تعلق ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسکیم کو مقامی شہداء یا شخصیات جیسے شری کانت چاڑی، یادی ریڈی، کالوجی یا پی وی نرسمہا راؤ کے نام سے منسوب کیا جائے۔
اس سیاسی کھینچا تانی کے باوجود دیہی علاقوں میں نوجوانوں میں ایک پرامید فضا ہے۔ کئی ایسے نوجوان جنہوں نے برسوں سے اس موقع کا انتظار کیا، ان کے لیے 2 جون ایک نئے سفر کی شروعات ہو سکتی ہے جو خودانحصاری اور وقار کی طرف پہلا قدم ثابت ہوگا۔