حیدرآباد: تلنگانہ حکومت کے مشیر محمد علی شبر، جنہوں نے Waqf Amendment Act کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے، بدھ کے روز دہلی میں ہونے والی سماعت میں ذاتی طور پر شریک ہوئے اور اقلیتوں کے مذہبی خودمختاری کے حق میں عدالت کے سخت ریمارکس کا خیر مقدم کیا۔
بدھ کو سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے شبر علی نے کہا کہ عدالت کی جانب سے آئینی نکات پر اٹھائے گئے سوالات نے ان کے موقف کو تقویت دی ہے، خاص طور پر غیر مسلموں کی وقف اداروں میں شمولیت اور صدیوں پرانے وقف جائیدادوں کے وجود کو لاحق خطرات پر۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کی سماعت نے ہماری بات کو درست ثابت کیا ہے۔ عدالت نے واضح طور پر اشارہ دیا ہے کہ یہ قانون سنگین آئینی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ سپریم کورٹ Waqf Amendment Act پر عمل درآمد روکنے کا حکم دے گا۔
انہوں نے اس قانون کو مسلمانوں کے مذہبی اداروں پر براہ راست حملہ قرار دیا اور عزم ظاہر کیا کہ وہ اپنی جدوجہد کو قانونی اور جمہوری طریقوں سے جاری رکھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک قانونی جنگ نہیں بلکہ مسلمانوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔ جب تک اس سخت گیر قانون کو منسوخ نہیں کیا جاتا، ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ہم عدالتوں، پارلیمنٹ اور عوام کے درمیان اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی قیادت میں جسٹس پی وی سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل بنچ نے بدھ کو پارلیمنٹ کی جانب سے 4 اپریل کو منظور شدہ اور 8 اپریل کو صدر جمہوریہ کی منظوری حاصل کرنے والے ترمیم شدہ وقف قانون کے خلاف دائر 100 سے زائد درخواستوں پر سماعت کی۔
اس مقدمے میں محمد علی شبر کی نمائندگی ممتاز وکلاء کپل سبل اور سلمان خورشید کر رہے ہیں۔
دوران سماعت، بنچ نے مرکزی وقف کونسل میں غیر مسلموں کی شمولیت کی منطق پر سوال اٹھایا اور مرکزی حکومت سے استفسار کیا کہ کیا ہندو مذہبی بورڈز میں بھی اسی طرز پر غیر ہندو افراد کی شمولیت کی اجازت دی جائے گی؟ عدالت نے ضلع کلکٹروں کو وقف جائیدادوں کے تنازعات میں نیم عدالتی اختیارات دینے پر بھی تشویش ظاہر کی اور ان قدیمی مساجد و مذہبی ڈھانچوں کی دستاویز سازی کے مسائل کی نشاندہی کی جو طویل روایات کے تحت وجود میں آئے ہیں۔
درخواست گزاروں کی جانب سے کپل سبل، راجیودھون، ابھیشیک منو سنگھوی اور سی یو سنگھ نے دلائل دیے کہ ان ترامیم سے آئین کے آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی ہوتی ہے، جو مذہبی طبقات کو اپنے امور خود چلانے کا حق دیتا ہے۔
مرکزی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سالیسیٹر جنرل نے ان ترامیم کا دفاع کیا اور کہا کہ ان کا مقصد شفافیت میں بہتری لانا ہے۔ تاہم عدالت نے دو اہم نکات پر عبوری احکامات جاری کرنے پر غور کرنےکا عندیہ دیا، جن میں وقف بورڈ کی رکنیت صرف مسلمانوں (سابقہ عہدیداروں کے علاوہ) تک محدود رکھنے اور مقدمے کے دوران ‘رسمی استعمال’ کے تحت قائم وقف جائیدادوں کے خلاف زبردستی کے اقدامات سے تحفظ فراہم کرنے کے امور شامل ہیں۔
یہ سماعت جمعرات، 17 اپریل کو دوبارہ جاری رہے گی۔