حیدرآباد: ایم بی بی ایس داخلوں میں MBBS local quota سے متعلق تلنگانہ حکومت کی پالیسی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جانے کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے پیر کے روز ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا ہے، اور اس سے چار ہفتوں میں جواب طلب کیا ہے۔ یہ معاملہ جسٹس پی کے مشرا اور اے جی مسیح کی بینچ کے روبرو پیش ہوا، جس میں آٹھ طلبہ نے درخواست دی کہ موجودہ کوٹہ پالیسی حقیقی مقامی امیدواروں کے ساتھ ناانصافی کر رہی ہے۔
طلبہ کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر وکیل گوتم نارائن نے دلیل دی کہ وہ طلبہ جو تلنگانہ میں پہلی سے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور جن کے والدین بھی مستقل رہائشی ہیں، صرف اس بنا پر لوکل کوٹہ سے محروم کیے جا رہے ہیں کہ انہوں نے انٹرمیڈیٹ تعلیم ہمسایہ ریاستوں میں حاصل کی۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ موجودہ اصول—جس کے تحت نیٹ یو جی امتحان سے قبل تلنگانہ میں لگاتار چار سالہ تعلیم لازم قرار دی گئی ہے—ان طلبہ کے ساتھ ناانصافی ہے۔
وکیل نے کہا کہ یہ پالیسی نہ صرف تلنگانہ کے حقیقی طلبہ کو محروم کر رہی ہے بلکہ ان امیدواروں کو فائدہ دے رہی ہے جو ریاست سے باہر سے آ کر محض چار سال تلنگانہ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ اس وقت لیا گیا جب تعلیمی سال پہلے ہی شروع ہو چکا تھا اور کئی طلبہ دیگر ریاستوں میں داخلہ لے چکے تھے۔
ابتدا میں جسٹس مشرا نے مشورہ دیا کہ طلبہ تلنگانہ ہائی کورٹ سے رجوع کریں، تاہم گوتم نارائن نے کہا کہ چونکہ نیٹ یو جی کے نتائج 14 جون کو جاری ہونے والے ہیں اور کاؤنسلنگ فوری شروع ہو گی، اس لیے تاخیر سے ان طلبہ کو شدید نقصان ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی فوری مداخلت ضروری ہے تاکہ ان طلبہ کو مقامی کوٹہ کے تحت جائز مقام مل سکے۔
سماعت کے بعد عدالت نے ریاستی حکومت کو چار ہفتوں میں تفصیلی جواب دینے کی ہدایت دی، اور یہ بھی واضح کیا کہ اگر اس دوران کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہو تو درخواست گزار چھٹیوں کے دوران دستیاب بینچ کے سامنے معاملہ دوبارہ پیش کر سکتے ہیں۔
سابق ایڈوکیٹ جنرل شری رام، جو اسی طرح کے مسئلہ سے دوچار دیگر طلبہ کی نمائندگی کر رہے تھے، نے کہا کہ ریاستی حکومت کا یہ اصول تلنگانہ کے “اصل فرزندوں” کے حقوق کو مجروح کر رہا ہے۔ جس پر جسٹس مشرا نے تبسم کے ساتھ کہا کہ یہ فرزندِ زمین اب دوسری زمین پر منتقل ہو چکے ہیں، جس سے عدالت میں لمحہ بھر کے لیے ہنسی کی فضا پیدا ہوئی۔
ریاستی حکومت کی طرف سے سینئر وکلاء ایل. نرسمہا ریڈی، جندھیالا روی شنکر، اور شراون کمار عدالت میں پیش ہوئے اور آئندہ تفصیلی جواب داخل کرنے کا اعلان کیا۔ اب جبکہ نیٹ یو جی کے نتائج اور کاؤنسلنگ قریب ہے، سپریم کورٹ کی یہ مداخلت ایم بی بی ایس داخلوں میں لوکل کوٹہ کی تعریف اور اطلاق پر نئی بحث کو جنم دے رہی ہے۔