حیدرآباد: سپریم کورٹ نے Kancha Gachibowli land معاملے میں درختوں کی غیرقانونی کٹائی پر کانگریس زیر قیادت تلنگانہ حکومت کو شدید سرزنش کا نشانہ بنایا ہے۔ عدالت نے ماحولیاتی نقصان پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عبوری احکامات جاری کیے اور حکام سے تفصیلی وضاحت طلب کی۔
جسٹس بی آر گوائی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے تلنگانہ حکومت سے دریافت کیا کہ آیا درختوں کی کٹائی سے قبل سپریم کورٹ کی 1996 میں جاری کردہ ماحولیاتی رہنما خطوط کے تحت باقاعدہ اجازت حاصل کی گئی تھی یا نہیں۔ حکومت کی جانب سے یہ جواز پیش کیا گیا کہ صرف جھاڑیاں اور ’جمایل ٹائپ‘ درخت ہٹائے گئے، جسے عدالت نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسی دلیلیں قابل قبول نہیں۔
بینچ نے اس بات پر بھی سوال اٹھایا کہ درختوں کی کٹائی ایک طویل ویک اینڈ کے دوران تیزی سے کیوں کی گئی، اور اس عمل کے پیچھے محرکات پر شبہ ظاہر کیا۔ عدالت میں پیش کردہ ویڈیوز کے مطابق درختوں کی کٹائی کے بعد جنگلی حیات پر کتوں کے حملے کے واقعات پیش آئے، جس پر عدالت نے شدید ردعمل دیا۔
جسٹس گوائی نے کہا کہ ماحولیاتی تحفظ کوئی اختیاری معاملہ نہیں بلکہ آئینی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے انتباہ دیا کہ اگر ضرورت پڑی تو عدالت پورے 2400 ایکڑ علاقے میں ایک بھی درخت کو کاٹنے کی اجازت نہیں دے گی۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ معاملہ زمین کی رہن سے متعلق نہیں بلکہ صرف درختوں کی غیرقانونی کٹائی سے متعلق ہے۔
ریاستی حکومت کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ یہ علاقہ جنگلاتی اراضی کے زمرے میں نہیں آتا، جس پر عدالت نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایسی منطق اپنائی جائے تو ذمہ دار افسران کو وہیں جیل بھیجنا پڑے گا۔
چیف سیکریٹری (CS) کو بھی عدالت نے نشانے پر لیا اور کہا کہ اگر درختوں کی کٹائی بغیر اجازت کی گئی تو چیف سیکریٹری سمیت متعلقہ افسران کو جیل بھیجنے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ جسٹس گوائی نے سوال کیا کہ اگر آپ چیف سیکریٹری کو بچانا چاہتے ہیں، تو یہ بتائیں کہ 100 ایکڑ زمین کی بحالی کس طرح کی جائے گی۔
سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو چار ہفتوں کے اندر ایک جامع بحالی منصوبہ عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے، جس میں وقت کا تعین، ماحولیاتی بحالی کے اقدامات اور مقامی جنگلی حیات کے تحفظ کے طریقے شامل ہوں۔ عدالت نے آئندہ سماعت 15 مئی تک کے لیے اس زمین پر جوں کا توں حالت برقرار رکھنے (status quo) کا حکم بھی جاری کیا ہے۔