فلاحی اسکیموں کیلئے فنڈز کی کمی، تلنگانہ حکومت کا اضافی قرضوں پرغور | Telangana

Telangana

حیدرآباد: Telangana حکومت، جس کی قیادت چیف منسٹر اے ریونت ریڈی کر رہے ہیں، رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں اضافی قرضہ جات حاصل کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے تاکہ اہم فلاحی اسکیموں کیلئے درکار فنڈز کی قلت کو پورا کیا جا سکے۔

ریاستی یوم تاسیس ۲ جون کو “راجیو یووا وکاسم” اسکیم کے تحت مالی امداد کی تقسیم کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس اسکیم کیلئے سال 2025ء کے بجٹ میں 6,600 کروڑ روپۓ مختص کیے گئے ہیں، جن میں سے ایک حصہ پہلی سہ ماہی میں جاری کیا جانا ہے۔ اسی دوران جون میں خریف کاشت کا موسم شروع ہوتا ہے، جس کیلئے “رائیتو بھروسہ” اسکیم کے تحت قبل از وقت امداد ناگزیر ہے۔ اس اسکیم کیلئے 18,000 کروڑ روپۓ مختص کیے گئے ہیں، جن میں سے آدھی رقم کسانوں کو بیجائی سے پہلے فراہم کرنا ہوگی۔

غیرمحصولی آمدنی میں کمی اور مرکزی گرانٹس کے بروقت اجراء پر غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر، ریاستی محکمہ مالیات جارحانہ قرضہ حکمتِ عملی اختیار کرنے پر غور کر رہا ہے۔ اپریل تا جون سہ ماہی کے دوران 16,000 کروڑ روپۓ سے زائد کے بانڈز فروخت کے ذریعہ حاصل کیے جانے کا امکان ہے۔

مالی سال 2025ء کے لیے مجموعی آمدنی کا ہدف 1.18 لاکھ کروڑ روپۓ مقرر کیا گیا ہے، جس میں غیرمحصولی ذرائع سے 31,618 کروڑ، مرکزی گرانٹس سے 22,782 کروڑ، اور نئے قرضوں سے 64,539 کروڑ روپۓ کی وصولی شامل ہے۔ ان میں سے تقریباً 29,000 کروڑ روپۓ کی آمدنی پہلی سہ ماہی میں متوقع ہے، لیکن اب تک غیرمحصولی آمدنی مایوس کن رہی ہے اور گرانٹس کی فراہمی غیرشفاف بنی ہوئی ہے۔

گزشتہ مالی سال میں مرکزی گرانٹس کی ابتدائی تخمینہ 21,636 کروڑ روپۓ تھا، لیکن نظرثانی کے بعد یہ رقم 19,836 کروڑ تک محدود کر دی گئی، جس کا بڑا حصہ ریاست کو موصول ہی نہیں ہوا۔ علاوہ ازیں، کنچ گوچی باولی میں متنازعہ اراضی کے باعث لینڈ آکشن سے کسی بڑی آمدنی کی امید بھی ختم ہو چکی ہے، جس کے بعد افسران کو متبادل ذرائع آمدنی تلاش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

محکمہ مالیات نے مختلف محکموں کو ہدایت دی ہے کہ وہ آمدنی میں خلا کو پُر کرنے کیلئے اقدامات کریں۔ تجارتی محاصل کے محکمہ نے ان تاجروں کی نگرانی شروع کر دی ہے جو ان پٹ ٹیکس کریڈٹ (ITC) کا غلط استعمال کرتے ہوئے ریونیو میں خسارہ پیدا کر رہے ہیں۔

ریاستی حکومت کا مقصد یہ ہے کہ فلاحی اسکیموں کی بروقت تکمیل یقینی بنائی جائے، چاہے اس کیلئے قرضوں کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے۔

Exit mobile version