حیدرآباد: تلنگانہ حکومت کی جانب سے حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی (ایچ سی یو) سے متصل 400 ایکڑ اراضی کو ترقیاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے منصوبے نے تنازع کو جنم دیا ہے، جس میں طلبہ احتجاج، سیاسی مخالفت اور ماحولیاتی تحفظ کے مسائل شامل ہیں۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اراضی پر حکومت کی ملکیت کو سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے۔ بتایا گیا کہ 2004 میں مذکورہ اراضی ایک نجی کمپنی کو دی گئی تھی لیکن منصوبہ عملی شکل اختیار نہ کر سکا، جس کے بعد الاٹمنٹ منسوخ کر کے قانونی کارروائی کے ذریعے حکومت نے زمین واپس حاصل کرلی۔ اب حکومت اس جگہ کو آئی ٹی اور انفراسٹرکچر ترقی کے لیے استعمال کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔
طلبہ اور ماحولیاتی کارکنوں کا مؤقف
حکومتی اقدامات کے خلاف ایچ سی یو کے طلبہ اور ماحولیاتی کارکنوں نے احتجاج شروع کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اراضی قدرتی حسن، حیاتیاتی تنوع، اور جنگلی حیات کی پناہ گاہ ہے، جسے کسی بھی صورت میں نقصان نہیں پہنچایا جانا چاہیے۔ جب زمین ہموار کرنے والی مشینری نے کام شروع کیا تو مظاہروں میں شدت آئی اور کئی طلبہ کو حراست میں بھی لیا گیا۔ یونیورسٹی کے طلبہ یونین نے اس اقدام کی شدید مذمت کی اور علاقے کی ماحولیاتی اہمیت پر زور دیا۔
سیاسی ردعمل اور تنقید
بھارت راشٹرا سمیتی (بی آر ایس) کے رہنما کے تارک راما راؤ (کے ٹی آر) نے حکومت کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر ان کی پارٹی اقتدار میں واپس آئی تو وہ اس زمین کو واپس لے کر وہاں ایک وسیع ماحولیاتی پارک قائم کریں گے۔ انہوں نے خریداروں کو خبردار کیا کہ وہ سرمایہ کاری سے قبل محتاط رہیں کیونکہ زمین پر ملکیت کا تنازع جاری ہے۔
وزیراعلیٰ کی وضاحت
چیف منسٹر ریونت ریڈی نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ کسی جنگل یا محفوظ وائلڈ لائف علاقے کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اس منصوبے کی مخالفت صرف سیاسی مفادات کے تحت کی جا رہی ہے تاکہ ریاستی ترقی میں رکاوٹ پیدا کی جا سکے۔
فی الحال یہ معاملہ سیاسی، قانونی اور ماحولیاتی سطح پر جاری ہے اور 400 ایکڑ اراضی کے مستقبل پر بحث میں شدت آتی جا رہی ہے۔