دہلی: Wakf Amendment Bill جمعرات کی شب راجیہ سبھا میں طویل بارہ گھنٹے کی بحث کے بعد منظور کرلیا گیا، جس کے حق میں 128 ووٹ اور مخالفت میں 95 ووٹ ڈالے گئے۔
یہ بل بدھ کے روز لوک سبھا سے بھی بارہ گھنٹے کی بحث کے بعد منظور کیا گیا تھا۔ اب یہ بل صدر جمہوریہ کی منظوری کے لیے بھیجا جائے گا، جس کے بعد اسے قانون کی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔
راجیہ سبھا میں ہونے والی بحث کے دوران بیجو جنتا دل (بی جے ڈی) نے اپنے ارکان پارلیمان کو کوئی وہپ جاری نہیں کیا اور کہا کہ وہ Wakf Amendment Bill پر اپنی ضمیر کے مطابق ووٹ دیں۔
بی جے پی کے رکن پارلیمان سدھانشو ترویدی نے مباحثے کے دوران تاج محل کے سلسلے میں وقف بورڈ کے دعوے کا حوالہ دیا اور بتایا کہ اس وقت سپریم کورٹ نے بورڈ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے ایوان کو بتایا کہ یہ بل وسیع مشاورت کے بعد تیار کیا گیا اور اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے سپرد کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جے پی سی کی سفارشات کی روشنی میں بدھ کی رات بل کو لوک سبھا میں منظور کیا گیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ترمیم شدہ بل شفافیت، جوابدہی اور درستگی پر مبنی ہے۔
رجیجو نے یہ بھی کہا کہ بل کے اصل مسودے اور موجودہ شکل کے درمیان کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں، جو مختلف تجاویز کی بنیاد پر عمل میں لائی گئیں۔ اگرچہ تمام تجاویز شامل نہیں کی جا سکیں، لیکن اکثریتی تجاویز کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’جمہوریت میں حکومت اکثریت سے بنتی ہے۔‘‘
کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے حکومت کی نیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ترمیم شدہ قانون کے تحت وقف اراضی کس کو دی جائے گی، یہ واضح نہیں ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ شاید یہ زمینیں کسی کارپوریٹ ادارے جیسے امبانی یا اڈانی کو دی جائیں۔ انہوں نے وزیر داخلہ سے اپیل کی کہ بل کو واپس لے لیں اور اسے اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائیں، کیونکہ یہ قانون مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے اور آئین کے خلاف ہے۔
کھڑگے نے انوراگ ٹھاکر کے اس الزام پر بھی جواب دیا کہ ان کے خاندان کے پاس وقف زمین ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ایک انچ بھی وقف زمین نہیں ہے اور انہوں نے ٹھاکر سے یا تو ثبوت پیش کرنے یا استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ بل کو اپوزیشن نے قبول نہیں کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں سنگین خامیاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’طاقت سے ہمیشہ حق ثابت نہیں ہوتا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وقف زمینیں خیراتی عطیات کا نتیجہ ہیں، جنہیں کسی بھی مذہب کے افراد دے سکتے ہیں، لیکن حکومت اقلیتوں کے حقوق سلب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ ایوان اس قانون کو منظوری دے گا۔ انہوں نے کہا کہ بل کا نام ’امید‘ (Unified Wakf Management Empowerment, Efficiency and Development) ہے اور اب اس کی بنیاد بھی امید پر ہے۔ نڈا نے بتایا کہ 2013 میں قائم کی گئی جے پی سی میں 13 ارکان تھے، جبکہ مودی حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی میں 31 ارکان تھے، جو وسیع تر نمائندگی کی علامت ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’جمہوریت کا مطلب صرف اتفاق رائے نہیں بلکہ مدلل بحث ہے۔‘‘
شیو سینا (یو بی ٹی) کے رکن پارلیمان سنجے راوت نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے سوال کیا کہ حکومت کو مسلمانوں کی فکر اچانک کیوں ہونے لگی ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہی حکومت اکثر مسلمانوں پر زمین ہڑپنے اور چوری کے الزامات عائد کرتی ہے۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے چالیس ہزار بے گھر کشمیری پنڈتوں کی زمین واپس نہیں کی اور چین کی جانب سے مبینہ تجاوزات پر بھی خاموش ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’حکومت کو ان زمینوں کی فکر کرنی چاہیے۔‘‘