نئی دہلی: Waqf Amendment Act پر بدھ کے روز سپریم کورٹ میں ہوئی سماعت کے دوران آئینی خود مختاری، وقف بورڈز کی ساخت، اور ایک اسلامی ادارے میں غیر مسلم افراد کی شمولیت جیسے حساس موضوعات پر گہری بحث دیکھنے کو ملی۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ترمیمی قانون کی شقوں پر مرکز کی منطق پر سوال اٹھاتے ہوئے ان کی آئینی حیثیت اور بنیادی حقوق سے مطابقت پر تحفظات کا اظہار کیا۔
یہ سماعت چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس پی وی سنجے کمار، اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل بینچ نے کی، جس میں 100 سے زائد درخواستیں زیر غور آئیں جو پارلیمنٹ کی جانب سے 4 اپریل کو منظور اور 8 اپریل کو صدارتی منظوری کے بعد نافذ ہونے والے ترمیمی وقف قانون کو چیلنج کر رہی ہیں۔ درخواست گزاروں کی نمائندگی سینئر وکلا کپل سبل، راجیور دھون، ابھیشیک منو سنگھوی، اور سی یو سنگھ کر رہے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ ترمیمات مذہبی آزادی، خصوصاً آئین کے آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی کرتی ہیں جو مذہبی جماعتوں کو اپنے امور خود سنبھالنے کا حق دیتا ہے۔
سماعت کے دوران ایک مرکزی نکتہ Waqf Amendment Act کے تحت مرکزی وقف کونسل میں غیر مسلم افراد کی شمولیت تھی۔ عدالت نے مرکز سے سوال کیا کہ کیا اسی منطق کے تحت مسلمانوں کو ہندو مذہبی بورڈز میں شامل کیا جا سکتا ہے؟ بینچ نے نشاندہی کی کہ تروپتی دیوستھانم بورڈ یا دیگر ہندو اوقافی اداروں میں غیر ہندو افراد کی شمولیت کی اجازت نہیں دی جاتی۔ چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ صرف وہ اراکین جو سرکاری عہدوں پر فائز ہوں، انہیں استثنیٰ دیا جا سکتا ہے، باقی تمام اراکین کا مسلمان ہونا لازمی ہے۔
درخواست گزاروں نے ضلع مجسٹریٹ کو وقف جائیدادوں سے متعلق تنازعات کا فیصلہ کرنے کا اختیار دینے کو بھی چیلنج کیا۔ وکیل کپل سبل نے مؤقف اختیار کیا کہ انتظامی افسران کو عدالتی اختیارات دینا غیر جانبداری کے اصول کی خلاف ورزی ہے اور یہ ریاست کو مذہبی معاملات میں بے جا مداخلت کی اجازت دیتا ہے۔ سبل نے کہا کہ ضلع کلکٹر حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے، اور اگر حکومت خود ایک فریق ہے تو اس کا نمائندہ کیسے منصف بن سکتا ہے؟
عدالت نے ان تاریخی وقف جائیدادوں کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھایا جن کی تشکیل “یوزر” یعنی صدیوں پرانے استعمال کے ذریعے ہوئی ہو، مگر ان کے پاس رسمی دستاویزات موجود نہ ہوں۔ بینچ نے کہا کہ اگر ایسی قدیم مساجد جن کے وجود کا ریکارڈ 14ویں یا 16ویں صدی سے ہے، صرف اس وجہ سے کالعدم قرار دی جائیں کہ ان کے پاس سیل ڈیڈ موجود نہیں، تو یہ تاریخ کو مٹانے کے مترادف ہوگا۔ عدالت نے دریافت کیا کہ ایسی جائیدادوں کو ترمیمی قانون کے تحت کیسے رجسٹر کیا جائے گا؟
مرکز کی نمائندگی کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے مؤقف اختیار کیا کہ رجسٹریشن کی شرط 1995 کے قانون میں بھی موجود تھی، اور موجودہ ترمیمات نے صرف انہی تقاضوں کو مزید واضح کیا ہے۔ انہوں نے ریاستی مداخلت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان اصلاحات کا مقصد شفافیت اور جوابدہی میں اضافہ ہے۔
قانون کے خلاف حالیہ احتجاجات کے حوالے سے تشویش پر اظہار خیال کرتے ہوئے مہتا نے عدالت سے کہا کہ ایسا تاثر نہ پیدا ہو کہ تشدد کے ذریعے عدالتی فیصلوں کو متاثر کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دباؤ ڈالنے کی کوششوں سے آئینی عمل متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ عدالت نے مظاہروں کا نوٹس لیا لیکن واضح کیا کہ فیصلہ صرف قانونی نکات کی بنیاد پر ہی ہوگا۔
بینچ نے فوری احکامات جاری کرنے سے گریز کیا، تاہم دو عبوری احکامات پر غور کی بات کی۔ اول، تمام غیر سرکاری اراکین کا مسلمان ہونا لازمی قرار دیا جائے۔ دوم، زیر التواء کیس کے دوران “یوزر” کی بنیاد پر قائم وقف جائیدادوں کے خلاف حکومت کوئی سخت اقدام نہ اٹھائے۔
سماعت کا اگلا دور جمعرات، 17 اپریل کو دوپہر 2 بجے ہوگا۔ Waqf Amendment Act پر سپریم کورٹ کی یہ کاروائی مذہبی اداروں کی حکمرانی اور اقلیتوں کے آئینی حقوق کے توازن پر دور رس اثرات ڈال سکتی ہے۔