حیدرآباد: سپریم کورٹ نے پیر کے روز Waqf Amendment Act پر ہونے والی سماعت کو 15 مئی تک کے لیے ملتوی کر دیا، اور عارضی احکامات میں توسیع کر دی جن کے تحت وقف بورڈز میں نئی تقرریوں پر پابندی برقرار رہے گی اور متنازعہ وقف جائیدادوں کی موجودہ حالت کو برقرار رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
یہ التواء 17 اپریل کو دیے گئے اس عدالتی حکم کے بعد سامنے آیا ہے جس میں عدالتِ عظمیٰ نے مرکزی حکومت کو اس متنازعہ قانون کے خلاف دائر درخواستوں پر جواب داخل کرنے کے لیے سات دن کی مہلت دی تھی۔ اسی سماعت میں عدالت نے وقف بورڈ کو نئی تقرریوں سے روک دیا تھا اور تمام فریقین کو حکم دیا تھا کہ وہ وقف قرار دی گئی جائیدادوں کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھیں۔
25 اپریل کو داخل کردہ اپنے حلف نامے میں مرکزی حکومت نے اس ترمیمی قانون کے آئینی جواز کا دفاع کیا اور کہا کہ یہ قانون پارلیمنٹ سے باقاعدہ طور پر منظور ہوا ہے، اس لیے اس پر عدالتی مداخلت مناسب نہیں۔ اس حلف نامے میں 1300 سے زائد صفحات شامل ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2013 کے بعد وقف رجسٹری میں 20 لاکھ ایکڑ سے زیادہ اراضی کا اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں سرکاری اور نجی زمینوں پر تنازعات میں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے حکومت کے ان دعوؤں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت میں غلط معلومات پیش کی گئی ہیں۔ بورڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے افسران کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے مبینہ طور پر جھوٹا حلف نامہ جمع کرایا ہے۔
اس ترمیم شدہ وقف قانون کے خلاف اب تک سپریم کورٹ میں 70 سے زائد درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں، تاہم عدالت نے فی الحال صرف پانچ اہم درخواستوں پر غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جن میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمان اسدالدین اویسی کی درخواست بھی شامل ہے۔
یہ نیا قانون اپریل میں صدر کی منظوری کے بعد نافذ ہوا، جسے لوک سبھا میں 288 ووٹوں سے اور راجیہ سبھا میں 128 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ کئی اپوزیشن جماعتوں نے اس قانون کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا ہے اور اس میں مداخلت کی اپیل کی ہے۔
عدالت کی آئندہ سماعت 15 مئی کو متوقع ہے، جس میں ان درخواستوں پر مزید بحث اور فیصلے کی سمت متعین ہونے کا امکان ہے۔