سپریم کورٹ میں وقف قانون پر سماعت مکمل، عبوری فیصلہ محفوظ | Waqf Amendment Act

Waqf Amendment Act

حیدرآباد: سپریم کورٹ نے Waqf Amendment Act 2025 کے تین متنازع نکات پر دائر درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد عبوری فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ جمعرات کو چیف جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح پر مشتمل بینچ نے مسلسل تین دن کی سماعت کے بعد محفوظ کیا۔

درخواست گزاروں نے عدالت سے تین نکات پر عبوری ہدایت جاری کرنے کی اپیل کی ہے: ایسے جائیدادوں کو وقف قرار دینے یا نہ دینے کا اختیار جو عرف عام یا دستاویزات کے ذریعے وقف تصور ہوتی ہیں، ریاستی وقف بورڈز اور مرکزی وقف کونسل کی تشکیل، اور وہ شق جس کے تحت زیر تفتیش جائیدادوں کو حکومت کی ملکیت تصور کیا جا سکتا ہے۔

سینئر وکیل کپل سبل، راجیودھون اور ابھیشیک منو سنگھوی نے درخواست گزاروں کی نمائندگی کی جبکہ یونین حکومت کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا عدالت میں پیش ہوئے۔

جمعرات کو ہونے والی سماعت میں کپل سبل نے دلیل دی کہ جیسے ہی کسی زمین پر وقف ہونے یا نہ ہونے کی تفتیش شروع ہوتی ہے، اس کی وقف حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا صدیوں پرانے قبرستان اب حکومت کی ملکیت قرار دیے جا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس گوائی نے سوال کیا کہ یہ جائیدادیں اب تک رجسٹر کیوں نہیں کی گئیں، جس پر سبل نے جواب دیا کہ اس کی ذمہ داری ریاستی اداروں پر عائد ہوتی ہے، اور اب کمیونٹی کو ان کی کوتاہیوں کی سزا نہیں دی جا سکتی۔

بدھ کے روز سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے مؤقف اختیار کیا کہ کوئی فرد یا ادارہ حکومت کی زمین پر ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا، چاہے وہ ‘عرفی وقف’ ہی کیوں نہ ہو۔

مرکزی حکومت نے قانون پر کسی بھی قسم کی روک کی سخت مخالفت کی، اور مؤقف اپنایا کہ وقف کا تصور سیکولر ہے اور آئینی حدود کے اندر آتا ہے۔ تشار مہتا نے دلیل دی کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون کو عدالتی مداخلت کے ذریعے روکا نہیں جانا چاہیے۔

درخواست گزاروں نے قانون کو غیر آئینی قرار دیا اور کہا کہ اس سے حکومت کو غیر عدالتی طریقے سے جائیدادوں پر قبضہ کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی مؤقف اختیار کیا کہ وقف اداروں میں صرف مسلمان افراد (بجز سرکاری رکن) کو شامل ہونے کی اجازت ہونی چاہیے۔

عدالت نے اپنے فیصلے کی تاریخ کا اعلان ابھی نہیں کیا ہے۔ 25 اپریل کو وزارت اقلیتی امور نے ایک 1,332 صفحات پر مشتمل حلف نامہ داخل کیا تھا جس میں قانون کی آئینی حیثیت کا دفاع کیا گیا۔

Exit mobile version