رمضان المبارک کا مقدس مہینہ مسلمانوں کے لیے رحمتوں، برکتوں اور مغفرتوں کا خزانہ لے کر آتا ہے۔ اس ماہ میں عبادات کے ساتھ ساتھ صدقات و خیرات کا جذبہ بھی عروج پر ہوتا ہے۔ حیدرآباد کے مسلمان اس ماہ میں دل کھول کر زکوۃ اور صدقات کی ادائیگی کرتے ہیں، جس سے لاکھوں ضرورت مند افراد مستفید ہوتے ہیں۔
زکوٰۃ کس پر فرض ہے؟
زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ یہ ہر اس مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے جو مندرجہ ذیل شرائط پوری کرتا ہو
مسلمان ہونا: زکوٰۃ صرف مسلمان پر فرض ہے۔
آزاد ہونا: غلام یا باندی پر زکوٰۃ فرض نہیں۔
عاقل و بالغ ہونا: سمجھ بوجھ رکھتا ہو اور بلوغت کی عمر کو پہنچ چکا ہو۔
نصاب کا مالک ہونا: اس کے پاس نصاب کی مقدار کے برابر مال موجود ہو۔
حاجاتِ اصلیہ سے زائد مال: بنیادی ضروریاتِ زندگی سے زائد مال ہو۔
سال کا گزرنا: اس مال پر قمری سال (ہجری سال) گزر چکا ہو۔
نصاب: زکوٰۃ کے فرض ہونے کے لیے نصاب کا مالک ہونا ضروری ہے۔ سونے، چاندی، نقدی اور تجارت کے سامان کا نصاب درج ذیل ہے
سونا: 87.48 گرام (7.5 تولہ)
چاندی: 612.36 گرام (52.5 تولہ)
نقدی/سرمایہ: اگر اس کی مالیت چاندی کے نصاب تک پہنچ جائے۔
زکوۃ کسے دی جانی چاہیے؟
قرآن مجید کی سورہ التوبہ میں زکوٰۃ کے مصرف آٹھ اصناف بیان کی گئی ہیں
١. مسکین: وہ لوگ جو ضرورت مند ہوں لیکن اپنی ضرورت کو ظاہر نہ کریں۔
٢. فقیر: وہ لوگ جو انتہائی تنگدست ہوں اور لوگوں سے سوال کریں۔
٣. رقاب: غلاموں اور قیدیوں کی آزادی کے لیے۔
٤. غارمین: وہ لوگ جو جائز کاموں میں قرضدار ہوں اور ادا کرنے سے قاصر ہوں۔
٥. فی سبیل اللہ: اللہ کی راہ میں جدوجہد اور دیگر نیک کاموں کے لیے۔
٦.ابن السبیل: مسافر جو دوران سفر مدد کے محتاج ہوں۔
زکوٰۃ کی رقم انہی مستحقین میں تقسیم کی جانی چاہیے تاکہ معاشرے میں عدل و انصاف اور معاشی توازن قائم ہو سکے۔
حیدرآبادی مسلمانوں کی سخاوت
حیدرآباد دکن کی مسلم برادری اپنی سخاوت اور خیرات کے لیے مشہور ہے۔ رمضان کے مقدس مہینے میں یہ جذبہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، حیدرآبادی مسلمان رمضان کے مہینے میں ضرورت مندوں کو ایک اندازے کے مطابق 2,000 کروڑ روپے سے زیادہ کی امداد فراہم کرتے ہیں۔ یہ رقم مختلف صورتوں میں استعمال ہوتی ہے۔
تعلیمی امداد: غریب طلبہ و طالبات کے لیے اسکالرشپ اور تعلیمی سہولیات۔
طبی امداد: بیماروں کے علاج معالجے اور طبی سہولیات کی فراہمی۔
خوراک کی تقسیم: روزہ داروں اور غریب خاندانوں میں افطار اور سحری کا انتظام۔
رہائش کی فراہمی: بے گھر افراد کے لیے رہائش اور پناہ گاہیں۔
قرضوں کی ادائیگی: مستحق افراد کے قرضوں کی ادائیگی میں مدد۔
بے روزگاروں کی معاونت: روزگار کے مواقع فراہم کرنا اور ہنر سکھانا۔
علیم خان فلکی، سماجی جہد کار
رمضان کے دوران حیدرآباد کے مسلمانوں کی جانب سے دی جانے والی زکوۃ کا مصرف کیا ہونا چاہیے، انہیں قوم کی بھلائی کے لیے کیسے استعمال کیا جائے؟ اس سوال پر سماجی جہد کار علیم خان فلکی نے ہمیں بتایا کہ زکوۃ اسلام کا دیا ہوا ایسا طاقتور ذریعہ ہے جس سے قوم میں غربت کو نہ صرف دور کیا جاسکتا ہے بلکہ آج کے دور میں حکومت کی جانب سے دی جارہی نام نہاد امداد کی بھی ضرورت نہیں ہوگی، اگرچیکہ اس کا استعمال شفاف طریقے سے کیا جائے۔ علیم خان فلکی نے افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ قوم کی بدقسمتی ہے کہ ہندوستان میں زکوۃ کی تقسیم کے لیے ناقص اور کرپٹ سسٹم ہے جس کی وجہ سے غربت کا خاتمہ تو دور، بھیک مانگنے والوں اور مساکین کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔ انہوں نے ایک قول سناتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح نماز میں کچھ غلطیاں ایسی ہیں جن کی وجہ سے نماز کا لوٹانا واجب ہوجاتا ہے، اسی طرح زکوۃ بھی اگر مستحق اور واجب حقدار تک نہیں پہنچے تو اس کا بھی لوٹانا واجب ہوجاتا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول بھی سنایا کہ دس افراد مل کر گیارہویں شخص کو ایسی زکوۃ دیں کہ وہ اگلے سال زکوۃ دینے کے قابل ہوجائے۔ علیم خان فلکی نے جہاں مدرسے کے غریب بچوں کو زکوۃ دینے کی وکالت کی وہیں انہوں نے غریب لڑکیوں کی شادی کے لیے زکوۃ کی رقم خرچ کرنے پر خدشات ظاہر کیے۔ انہوں نے کہا کہ غیر ضروری رسموں، اصراف کرتے ہوئے شادی کو انجام دیا جارہا ہے، کھانوں پر بڑی رقم صرف کی جارہی ہے، اس لیے ایسی شادیوں کے لیے زکوۃ کا فنڈ نہیں ہے۔ زکوۃ پر سب سے پہلا حق رشتہ داروں کا ہے۔
اعظم علی بیگ، سکریٹری جماعت اسلامی ہند حیدرآباد شاخ
زکوۃ کے صحیح مصرف اور اس کی مستحقین تک پہنچ کیسے ممکن ہو، اس سوال پر جماعت اسلامی ہند حیدرآباد شاخ کے سکریٹری اعظم علی بیگ نے بتایا کہ ’اسلام نے زکوۃ کی مدد سے غربت و افلاس کا خاتمہ کیا تھااور وہ لوگ جو زکوۃ لیتے تھے وہ زکوۃ دینے کے قابل ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی زکوۃ کے سب سے پہلے مستحق آپ کے اپنے رشتہ دار ہیں۔ انہوں نے زکوۃ کی ادائیگی کا بہترین طریقہ بتاتے ہوئے مثال بتائی کہ ’اگر آپ کی زکوۃ بیس ہزار روپے تک نکل رہی ہے تو بجائے اس کے کئی افراد میں ایک دو ہزار روپے دینے کے جنہیں دس یا بیس ہزار کی ضرورت ہو، انہیں یکمشت یہ رقم دی جائے تاکہ ان کی ضرورت پوری ہوجائے۔
رشتہ داروں کے بعد مساکین، مسافرین، سائلین (وہ مانگنے والے نہیں جو ہر رمضان دور دراز علاقوں سے خاص بھیک مانگنے کے لیے حیدرآباد آتے ہیں)، ایسے مسلم قیدی جو رقم ضمانت کی رقم کی ادائیگی نہ کرپانے سے قید میں مجبوراً زندگی گزار رہے ہیں۔ قرض میں مبتلا افراد جو کسی وجہ سے قرض ادا نہیں کرپارہے ہیں، ایسے افراد کو بھی زکوۃ کے ذریعے مدد کی جائے تاکہ وہ قرض اور اس کے ساتھ لگے سود کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرسکیں۔
الیاس شمسی، سماجی کارکن
صرف تعلیمی اداروں اور اونچی عمارتوں تک زکوۃ کی رقم کی تقسیم کو محدود کرکے دوسروں کا حق مارا جارہا ہے۔ یہ کہنا ہے حیدرآباد کے سماجی کارکن الیاسی شمسی کا۔ انہوں نے بتایا کہ مستحقین تک سیدھے زکوۃ کی رقم کی رسائی کے لیے وہ گزشتہ کئی سالوں سے ’ڈائریکٹ زکوۃ مومنٹ‘ پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے آج کے دور میں بیت المال کے تصور کا لایعنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ الگ الگ جماعتیں، تنظیمیں اور ادارے اپنے اپنے طور پر بیت المال کا نام دے رہے ہیں، دراصل وہ ان کے اپنے اپنے شخصی بیت المال ہیں، ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
الیاس شمسی نے کفاف کے نام پر زکوۃ کا تیس سے چالیس فیصد حصہ ضائع کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کفاف کے نام پر مستحق افراد کی حق تلفی ہوتی ہے۔ انہوں نے قریبی رشتہ داروں کو زکوۃ کی رقم کی راست ادائیگی کو زکوۃ مافیا سے بچانے والا عمل قرار دیا۔
حیدرآباد سحری کی روایت – بدلتا رجحان
زکوۃ کی ادائیگی سے معاشرے میں درج ذیل مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں
١. غربت میں کمی: زکوٰۃ کی رقم سے غریب افراد کی مالی حالت بہتر ہوتی ہے۔
٢. معاشی توازن:دولت کی منصفانہ تقسیم سے معاشی عدم توازن کم ہوتا ہے۔
٣. اجتماعی ہم آہنگی:زکوٰۃ کی ادائیگی سے معاشرے میں اخوت اور بھائی چارے کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔
٤. روحانی پاکیزگی: زکوٰۃ دینے والے کے دل میں سخاوت اور اللہ کی رضا کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
رمضان میں زکوۃ کی ادائیگی حیدرآبادی مسلمانوں کا اخلاص اور انسانیت سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 2,000 کروڑ روپے سے زیادہ کی یہ خطیر رقم معاشرے کے کمزور طبقات کی بحالی اور فلاح و بہبود میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس سے نہ صرف ضرورت مندوں کی مدد ہوتی ہے بلکہ معاشرے میں اخوت، بھائی چارے اور ہم آہنگی کو بھی فروغ ملتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ اس عظیم مثال کی پیروی کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق زکوٰۃ اور صدقات کی ادائیگی میں پیش پیش رہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاص کے ساتھ اس فریضے کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے مال و دولت میں برکت عطا فرمائے۔ آمین۔
Ramadan Dates Market: Rising Demand and Evolving Consumer Trends