حیدرآباد شہر میں رمضان کے دوران حافظ قرآن کی مانگ: ایک تفصیلی جائزہ
تاریخی و ثقافتی وراثت کے لیے مشہور حیدرآباد، جہاں رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے دوران ایک منفرد روحانی ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ شہر جہاں رمضان کے دوران ہندوستان بھر کے کاروباریوں کے لیے اپنے دروازے کھولتا ہے تو وہیں، یہاں رمضان کے دوران مختلف ریاستوں سے آنے والے حافظ قرآن کی مانگ میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ حافظ نہ صرف مساجد میں تراویح کی نماز پڑھاتے ہیں بلکہ ان کی خدمات انفرادی گھروں، اپارٹمنٹس اور حتیٰ کہ بعض کام کی جگہوں تک وسعت اختیار کرجاتی ہیں۔ اس رجحان کی وجہ سے ہر سال بہار اور اتر پردیش (یوپی) سے سینکڑوں حفاظ حیدرآباد کا رخ کرتے ہیں تاکہ اس مانگ کو پورا کیا جا سکے۔
رمضان میں حافظ قرآن کی مانگ کی وجوہات
رمضان المبارک مسلمانوں کے لیے ایک خاص مہینہ ہوتا ہے، جس میں قرآن کریم کی تلاوت اور تراویح کی نماز کا اہم مقام ہے۔ حیدرآباد کے باشندوں میں ایک گہری خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ اس مہینے میں قرآن کریم کو مکمل طور پر سننا چاہتے ہیں، جو تراویح کے دوران حافظ قرآن کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔ شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی، مساجد کی تعداد، اور لوگوں کی مذہبی وابستگی اس مانگ کو بڑھانے کے اہم عوامل ہیں۔
اس کے علاوہ، حیدرآباد میں رہنے والے بہت سے خاندان انفرادی طور پر اپنے گھروں میں تراویح کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ رجحان خاص طور پر ان گھرانوں میں زیادہ ہے جو بڑی تعداد میں رشتہ داروں کے ساتھ رہتے ہیں یا جن کے پاس مسجد تک رسائی محدود ہوتی ہے۔ اسی طرح، اپارٹمنٹ کمپلیکسز میں رہائشی کمیونٹیز اپنے طور پر حفاظ کی خدمات حاصل کرتی ہیں تاکہ وہ اپنے رہائشی علاقوں میں ہی تراویح کا انتظام کر سکیں۔ کچھ کاروباری اداروں اور دفتروں میں بھی ملازمین کے لیے تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس سے حافظ قرآن کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔
بہار اور یوپی سے حفاظ کا آنا
حیدرآباد میں مقامی سطح پر حافظ قرآن کی تعداد اگرچہ کم نہیں، لیکن رمضان کے دوران مانگ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ مقامی وسائل ناکافی ثابت ہوتے ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بہار اور اتر پردیش سے سینکڑوں حفاظ ہر سال حیدرآباد آتے ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں دینی تعلیم کا ایک مضبوط نظام موجود ہے، جہاں مدرسوں میں بڑی تعداد میں طلبہ قرآن کریم حفظ کرتے ہیں۔ یہ حفاظ عموماً نوجوان ہوتے ہیں اور رمضان کے دوران روزگار کے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حیدرآباد جیسے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔
ان حفاظ کا حیدرآباد آنا نہ صرف ان کے لیے معاشی فائدہ کا باعث بنتا ہے بلکہ شہر کے باشندوں کے لیے بھی ایک سہولت فراہم کرتا ہے۔ وہ اپنی خوبصورت آواز اور روانی کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھاتے ہیں، جو نمازیوں کے لیے روحانی لطف کا باعث بنتی ہے۔

محمد عابد حسین نظامی، کامل الفقہ جامعہ نظامیہ، خطیب جامع مسجد ابراہیم گلشنی بورا بنڈہ
رمضان کے دوران زیادہ سے زیادہ قرآن پاک کی تلاوت و سماعت پر زور دیتے ہوئے بورہ بنڈہ جامع مسجد ابراہیم گلشنی کے خطیب، کامل الفقہ جامعہ نظامیہ مولانا محمد عابد حسین نظامی نے کہا، یاد رکھیں! قرآن پاک کے بدلے دنیا کی کوئی دولت کافی نہیں ہوسکتی، اسی لیے رمضان کے دوران لوگوں کی طرف سے حفاظ کے ساتھ معاوضے کو لے کر ناپ تول نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ دل کھول کر اللہ کا کلام پاک سنانے والوں کو دینا چاہیے۔ اسی طرح محمد عابد حسین نظامی نے یہ بھی کہا کہ حفاظ کی جانب سے بھی ڈیمانڈ نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ تراویح کے دوران قرآن سنانے پر اتنی یا اُتنی رقم کی ڈیمانڈ کریں، اس طرح کی ڈیمانڈ دونوں طرف سے معیوب بات ہے۔
انہوں نے عوام سے یہ بھی اپیل کی کہ خاص طور پر ڈھونڈ کر ایسے حفاظ کا انتخاب کریں جو معاشی طور پر انتہائی مجبور ہیں، ایسے حفاظ کا تعین کریں اور دل کھول کر ان کی امداد کریں اور تعاون کریں۔ اسی طرح رمضان المبارک عبادتوں کا مہینہ اور اس مہینے جس طرح ہم اپنے ارکان خاندان کی ضرورتوں کا خاص خیال رکھتے ہیں اسی طرح حفاظ کرام و علما کرام کی بھی تعظیم کریں اور ضرورت مندوں کا خاص خیال کریں۔
حافظ قرآن کی خدمات کا دائرہ
حیدرآباد میں حافظ قرآن کی خدمات صرف مساجد تک محدود نہیں ہیں۔ ان کا کردار کثیر جہتی ہے
مساجد: شہر کی بڑی اور چھوٹی مساجد میں حفاظ تراویح کی امامت کرتے ہیں۔ حیدرآباد کی مشہور میں بھی ان کی موجودگی نمایاں ہوتی ہے۔
انفرادی گھر: بہت سے خاندان اپنے گھروں میں تراویح کا اہتمام کرتے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو بزرگ یا بیمار افراد کی وجہ سے مسجد نہیں جا سکتے۔ یہاں حفاظ کو مدعو کیا جاتا ہے جو گھر کے افراد کے لیے قرآن سناتے ہیں۔
اپارٹمنٹس: جدید رہائشی کمپلیکسز میں کمیونٹی ہالز یا چھتوں پر تراویح کا اہتمام عام ہے۔ یہاں ایک حافظ کئی فلیٹس کے مکینوں کے لیے نماز پڑھاتا ہے۔
کام کی جگہیں: بعض کمپنیوں اور دفتروں میں، جہاں ملازمین رات تک کام کرتے ہیں، تراویح کے لیے حفاظ کی خدمات لی جاتی ہیں تاکہ ملازمین اپنے دفتری اوقات کے دوران ہی عبادت کر سکیں۔
معاشی اور سماجی اثرات
رمضان کے دوران حفاظ کی آمد حیدرآباد کے معاشی اور سماجی منظرنامے پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ معاشی طور پر، یہ حفاظ مقامی معیشت میں حصہ ڈالتے ہیں کیونکہ انہیں ان کی خدمات کے عوض معاوضہ دیا جاتا ہے۔ عام طور پر ایک حافظ کو رمضان کے پورے مہینے کے لیے 20,000 روپے سے 50,000 روپے تک معاوضہ ملتا ہے، جو ان کی صلاحیت، آواز کی خوبصورتی اور تجربے پر منحصر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، انہیں رہائش، کھانا اور بعض اوقات سفر کے اخراجات بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔سماجی طور پر، یہ حفاظ شہر کے متنوع طبقات کے ساتھ رابطے میں آتے ہیں اور مختلف ثقافتوں کے امتزاج کو تقویت دیتے ہیں۔ بہار اور یوپی سے آنے والے حفاظ حیدرآباد کی تہذیبی روایات کو قریب سے دیکھتے ہیں اور مقامی لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہیں۔
عاجز ابن مسعود، امام مسجد قطب شاہی، بازار گارڈ
حیدرآباد میں رمضان کے دوران تراویح کے لیے حفاظ کی خدمات، ان کے لیے معاوضہ کو مختص کرنا، مدارس اور حفاظ کی اہمیت جیسے کئی اہم سوالوں کا جواب دیتے ہوئے بازار گارڈ علاقے کی مشہور و قدیم مسجد قطب شاہی کے امام عاجز ابن مسعود نے کئی اہم باتوں کا انکشاف کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’حیدرآباد میں رمضان کے دوران محلوں، اپارٹمنٹس، کام کی جگہوں پر نماز تراویح کا اہتمام، دراصل لوگوں کی ڈیمانڈ پر ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ ایسے ہیں جو جلد از جلد تراویح میں قرآن کی تکمیل چاہتے ہیں اسی لیے مساجد کے بجائے کام کی جگہہ و دیگر مقامات پر خاص طور پر حفاظ کی تقرری کی جاتی ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی عوام کی خواہش پر جلد از جلد قرآن مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، رمضان میں لوگ ایسے حفاظ کی زیادہ تلاش کرتے ہیں اور انہیں ترجیح دیتے ہیں جو سب سے کم پیسے لے کر بھی پڑھائے، سب سے اچھا قاری بھی ہو، اور سب سے تیز بھی ہو۔
حافظ ابن مسعود نے مزید کہا کہ لوگوں کے درمیان مسجدتک پہنچ کر تراویح کا اہتمام کرنے کی عادت دھیرے دھیرے کم ہوتی جارہی ہے، اسی لیے مساجد میں کم اور فنکشن ہال، گھروں اور کام کے مقاما ت پر پر تراویح کا اہتمام زیادہ ہورہا ہے۔ اتنا ہی نہیں، اس طرح آج کے پرفتن دور میں دشمنان اسلام بھی اپارٹمنٹس، و گھروں میں تراویح کے اہتمام کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں۔ امام مسجد قطب شاہی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جس طرح بیرون ریاستوں سے حفاظ حیدرآباد میں تراویح پڑھانے کے لیے آتے ہیں تو اُسی طرح شہر حیدرآباد کے وہ حافظ و قاری جن کی قرات کو لوگ پسند کرتے ہیں انہیں بیرون ملک سے قرآن سنانے کی دعوت ملتی ہے اور وہ رمضان کے دوران بیرون ممالک کا سفر کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ حیدرآباد میں رمضان کے دوران حفاظ کی قلت ہوجاتی ہے، بلکہ حیدرآباد سے ہر سال سینکڑوں حفاظ فارغ ہوتے ہیں تاہم انہیں موقع نہیں ملتا۔
چیلنجز اور مواقع
اس رجحان کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی وابستہ ہیں۔ مثال کے طور پر، حفاظ کی بڑی تعداد کے انتظام کے لیے مناسب رہائش اور دیگر سہولیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی زبان کا فرق بھی ایک مسئلہ بنتا ہے، کیونکہ بہار اور یوپی سے آنے والے حفاظ زیادہ تر ہندی یا بھوجپوری بولتے ہیں، جبکہ حیدرآباد میں اردو اور تیلگو زیادہ رائج ہے۔ تاہم، ان چیلنجز کے باوجود یہ عمل کامیابی سے جاری رہتا ہے کیونکہ مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔ رمضان میں عبادت کا اہتمام۔ دوسری طرف، یہ رجحان حفاظ کے لیے مواقع بھی پیدا کرتا ہے۔ وہ نہ صرف معاشی فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ اپنے دینی علم اور صلاحیتوں کو بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کا موقع بھی پاتے ہیں۔
شبینہ اور دو شبینہ میں ختم قرآن سے کتاب الٰہی کا مقصد فوت: علیم خان فلکی
مشہور سماجی کارکن اور مسلمانوں میں پھیلے بیجا رسومات کے خلاف مہم چلانے والے علیم خان فلکی نے کہا کہ رمضان المبارک میں شبینہ (ایک رات میں قرآن مکمل کرنا) اور دو شبینہ (دو راتوں میں ختم قرآن) کی روایت بعض مقامات پر عام ہو چکی ہے۔ اگرچہ قرآن کی تلاوت اور سننا باعثِ اجر ہے، لیکن انتہائی تیزی سے قرآن مکمل کرنے کی اس روایت کے چند ایسے پہلو بھی ہیں جو کتابِ الٰہی کے اصل مقصد کو متاثر کر سکتے ہیں۔ علیم خان فلکی نے اس ضمن میں چند اہم نکات پیش کیے۔
قرآن صرف تیز رفتاری سے پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ غور و فکر، تدبر اور عمل کے لیے نازل ہوا ہے۔ایک رات میں یا بہت کم وقت میں مکمل قرآن سننے اور سنانے سے اس میں غور و فکر ممکن نہیں رہتا۔خشوع و خضوع کی کمی۔ جب قرآن تیز رفتاری سے پڑھا جاتا ہے تو الفاظ کے صحیح تلفظ اور تجوید پر توجہ دینا مشکل ہو جاتا ہے۔اس طرح پڑھنے والے اور سننے والے دونوں کے دل میں قرآن کی وہ روحانی اثر پذیری باقی نہیں رہتی جو عام حالات میں تدبر کے ساتھ تلاوت سے حاصل ہوتی ہے۔نمازِ تراویح میں اصل مقصد قرآن کو سمجھنا اور اس سے ہدایت حاصل کرنا ہے، نہ کہ محض ایک رسم کے طور پر جلد از جلد مکمل کرنا۔شبینہ میں عام طور پر نمازیوں کو سمجھنے کا موقع نہیں ملتا، بلکہ وہ صرف سننے کے عمل میں مشغول رہتے ہیں۔
جب قرآن کو ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھا جاتا ہے تو اس کے احکامات پر عمل کرنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ قرآن محض نیکیاں کمانے کے لیے نہیں بلکہ زندگی کے لیے ایک رہنمائی ہے، جسے سمجھ کر عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔شبینہ اور دو شبینہ میں ختم قرآن کرنے سے حفاظ کرام پر حد سے زیادہ دباؤ آ جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ مکمل خشوع و خضوع کے ساتھ تلاوت نہیں کر پاتے۔تیز رفتاری سے نماز پڑھنے کے نتیجے میں نمازیوں کو بھی جسمانی اور ذہنی تھکن کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے عبادت کا اصل لطف اور روحانی کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔بہتر ہے کہ رمضان میں تراویح کو اس طریقے سے ادا کیا جائے کہ قرآن ٹھہر ٹھہر کر اور تجوید کے ساتھ پڑھا جائے۔ اگر قرآن کو انتیس یا ستائیس دن میں مکمل کیا جائے تو لوگ اس کو سننے اور سمجھنے کا وقت نکال سکتے ہیں۔ مساجد میں قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کی تشریح اور مختصر خلاصہ بھی پیش کیا جانا چاہیے تاکہ لوگ اس کے پیغام کو سمجھ سکیں۔
بہترین قرات اور پرسکون انداز میں قرآن سننا ہر مصلیان کی پسند
رمضان میں تراویح کو لے کر جب ہم نے حیدرآباد کے مختلف علاقوں کے شہریوں سے بات کی تو قریب قریب 99فیصد افراد کا یہی کہنا تھا کہ وہ رمضان کے دوران تراویح میں مکمل قرآن سننا تو پسند کرتے ہیں لیکن اگر بہترین قرات اور پرسکون انداز میں قرآن کی تلاوت مل جائے تو عبادت کا مزہ بھی دوبالا ہوجاتا ہے۔ ٹولی چوکی، گلشن کالونی کے رہائشی محمد حبیب نے بتایا کہ وہ ہر سال ’مسجد توحید‘ میں تراویح اور رمضان کے آخری عشرے میں ’قیام الیل‘ کا اہتمام کرتے ہیں۔ بے شک مسجد ان کے محلے میں واقع ہے لیکن مسجد کے امام کی جانب سے بہترین قرات میں نماز تراویح کا اہتمام انہیں یہاں آنے کے لیے راغب کرتا ہے۔ ریڈ ہلز، بازار گھاٹ کے رہائشی عبدالجلیل نے ہمیں بتایا کہ وہ مسجد پلٹن میں نماز تراویح کا اہتمام کرتے ہیں کیونکہ یہاں کے امام صاحب بڑے ہی پرسکون انداز میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔
اسی طرح، مہدی پٹنم واقع مسجد عزیزیہ میں برسوں سے تراویح کا اہتمام کرتے آرہے عبدالقادر صاحب نے بتایا کہ تراویح کے دوران بہترین قرات اور پرسکون انداز میں قرآن پاک کی تلاوت کے ساتھ ساتھ مسجد عزیزیہ میں پڑھائی گئی آیتوں کی تفسیر بھی بیان کی جاتی ہے۔ اسی طرح، حیدرآباد کے کئی شہریوں نے تاریخی مکہ مسجد، باغ عامہ کی شاہی مسجد، و دیگر کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ مقامی مسجدوں میں نمازوں کی ادائیگی تو کرتے ہیں لیکن اگر انہیں پتہ چلے کہ فلاں مسجد میں تراویح بہترین قرات اور پرسکون انداز میں پڑھائی جارہی ہے تو وہ اُن مساجد کا رُخ کرتے ہیں۔
بہرحال، حیدرآباد میں رمضان کے دوران حافظ قرآن کی مانگ اس شہر کے مذہبی جذبے اور سماجی ہم آہنگی کی عکاسی کرتی ہے۔ بہار اور اتر پردیش سے آنے والے سینکڑوں حفاظ اس مانگ کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور شہر کے مساجد، گھروں، اپارٹمنٹس اور کام کی جگہوں تک اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ رمضان کے اس مبارک مہینے میں ان کی خدمات کا اعتراف بھی ضروری ہے، کیونکہ وہ ہزاروں مسلمانوں کو قرآن سنانے اور اس کی برکات سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔