حیدرآباد سحری کی روایت – رمضان میں نیا رجحان
حیدرآباد، تلنگانہ میں ماہ رمضان ہمیشہ سے ایک خاص مذہبی اور ثقافتی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ شہر اپنی بھرپور تاریخ، متنوع ثقافت اور مشہور کھانوں کے لیے جانا جاتا ہے، جو رمضان کے دوران افطار کے دسترخواں کی زینت بنتے ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے جو اس مقدس مہینے کے روایتی معمولات میں ایک مختلف تبدیلی لا رہا ہے۔ہوٹلوں میں سحری کی دستیابی یا سحری پیکیج، جسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ پہلے سحری ایک نجی اور گھریلو عمل تھا جو خاندانوں کے درمیان گھروں میں تیار کیا جاتا تھا، لیکن اب ہوٹل اور ریستوران اسے ایک منظم اور تجارتی شکل دے رہے ہیں۔
رمضان کے دوران سحری روزہ داروں کے لیے ایک اہم کھانا ہوتا ہے، جو صبح سویرے فجر کی اذان سے قبل کھایا جاتا ہے۔ روایتی طور پر حیدرآباد میں گھروں میں سحری کے لیے سادہ لیکن غذائیت سے بھرپور کھانے تیار کیے جاتے تھے، جیسے کہ کھچڑی، دہی، پھل، روٹی اور گوشت کے چند ہلکے پکوان۔ یہ عمل خاندان کے افراد کے درمیان ایک روحانی اور جذباتی رابطے کا ذریعہ بھی تھا۔ماضی میں، سحری ایک نجی معاملہ ہوا کرتا تھا۔ خاندان کے افراد گھروں میں مل بیٹھ کر سادہ مگر قوت بخش کھانوں سے سحری کیا کرتے تھے۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ طرزِ زندگی میں تبدیلیاں آئیں، لیکن شہری زندگی کے بڑھتے دباؤ، مصروف طرز زندگی، اور نئی نسل کی ترجیحات نے اس روایت کو بدلنا شروع کر دیا ہے۔ اب بہت سے لوگ گھر میں سحری تیار کرنے کے بجائے باہر سے کھانا منگوانے یا ریستورانوں سے سحری کے پیکجز لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس رجحان کی ابتدا چند مقامی ہوٹلوں اور ریستورانوں سے ہوئی جو پہلے ہی افطار کے لیے حلیم اور دیگر پکوان پیش کرتے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ رمضان میں لوگوں کی کھانے کی طلب بڑھ جاتی ہے، اور سحری کے وقت بھی ایک ممکنہ بازار موجود ہے۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے سحری کے خصوصی پیکیجز متعارف کرائے، جن میں مختلف قسم کے کھانوں کے امتزاج شامل ہوتے ہیں، جو روزہ داروں کو توانائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ذائقے میں بھی بہترین ہوتے ہیں۔
حیدرآبادی ہوٹلوں میں مختلف قسم کے سحری کے پسندیدہ پکوان
حیدرآباد کے ہوٹل اور ریستوران مختلف قسم کے سحری پکوان پیش کر رہے ہیں جو ہر طبقے اور ذوق کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ ان میں عام طور پر درج ذیل چیزیں شامل ہوتی ہیں
روایتی حیدرآبادی پکوان: جیسے کہ کھچڑی کے ساتھ دم کاقیمہ، دالچہ، جو حیدرآبادی ذائقوں کی عکاسی کرتے ہیں۔اسی طرح، بعض ہوٹلوں میں روٹی کے ساتھ مختلف قسم کے سالن بھی پیش کیے جاتے ہیں۔
ہلکے اور صحت مند آپشنز: جیسے دہی، پھلوں کا سلاد، جوس، اور سموسوں یا پکوڑوں کی چھوٹی مقدار۔
قیمتوں کی بات کی جائے تو یہ سحری پکوان سادہ اور سستے سے لے کر پریمیم اور مہنگے تک ہوتے ہیں، جن کی قیمت فی کس سو روپے سے شروع ہو کر چار سو روپے یا اس سے زیادہ تک جا سکتی ہے، جو کھانے کی مقدار اور معیار پر منحصر ہے۔
کچھ مشہور مقامات جیسے کہ چارمینار، لکڑی کا پل، اور پرانے شہر کے بیشتر علاقوں میں کھانے کی ہوٹلیں رات گئے تک کھلے رہتے ہیں اور سحری کے وقت تک کھانا فراہم کرتے ہیں۔ کئی ہوٹلوں نے ڈیلیوری سروسز بھی شروع کی ہیں تاکہ لوگ گھر بیٹھے سحری کا مزہ لے سکیں۔
پرانے شہر حیدرآباد کے دارالشفا سے میر عالم منڈی کی سمت میں چھوٹے چوراہے پر’بسٹ رومالی پوائنٹ‘ نامی ایک ہوٹل ہے۔ ہوٹل کے پروپرائٹر زوہیر حسین نے بتایا کہ وہ گزشتہ 25 سالوں سے اپنی ہوٹل میں سحری کا خاص انتظام کرواتے ہیں۔ وہ دیگر ہوٹلوں کے مقابلے نان ویج میں بہت سے پکوان سحری کرنے والوں کے دستیاب کرواتے ہیں جن میں رومالی روٹی کے ساتھ قیمہ، تلا ہوا گوشت، بھیجا فرائے، گردہ اور دال چاول شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پرانے شہر میں لوگ مختلف کھانوں کے شوقین ہیں، یہاں بیرون ریاستوں و تلنگانہ کے دیگر اضلاع سے آنے والے طلبہ کی بہت کم تعداد ہے جو سحری میں ہوٹلوں کے کھانوں کو ترجیح دیتے ہیں، بلکہ مقامی افراد ہی سحری کے وقت ان پکوانوں کو لے جاتے ہیں۔
اسی طرح، نامپلی، حبیب نگر میں واقع مشہور ہوٹل ’الحمداللہ‘ میں بھی گزشتہ تیس سے زائد برسوں سے سحری کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ہوٹل کے منیجر رضوان محی الدین نے ہمیں بتایا کہ ریلوے اسٹیشن قریب ہونے پر مسافروں کی بڑی تعداد یہاں ہوٹلوں میں قیام پذیر ہیں جو رمضان کے دوران سحری کا انتظام نہیں کرپاتے اسی لیے ان کے ہوٹل میں آنے والی بڑی تعداد ایسے مسافروں کی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ سحری میں گاہکوں کو کھچڑی قیمہ اور تلا ہوا گوشت جیسے پکوان پیش کرتے ہیں اور یہی پکوان ان کے ہوٹل کی خاصیت ہے۔ حالانکہ کئی گاہک انہیں رمضان کے دوران ’مندی‘ کی خواہش کا بھی اظہار کرتے ہیں۔

سحری کی روایت میں تبدیلی کی وجوہات
وقت کی کمی: شہر میں رہنے والے بہت سے لوگ، خصوصاً ملازمت پیشہ افراد اور طلبہ، رات دیر تک جاگتے ہیں اور سحری کے لیے کھانا تیار کرنے کا وقت نہیں نکال پاتے۔ ان کے لیے یہ ہوٹلوں میں سحری کرنا ایک آسان حل ہیں۔
متنوع ذائقوں کی خواہش: حیدرآباد کے لوگ کھانوں کے شوقین ہیں، اور یہ سحری کے یہ پیکجز انہیں گھریلو کھانوں سے ہٹ کر کچھ نیا اور لذیذ کھانے کا موقع دیتے ہیں۔اس کے علاوہ حیدرآباد کا سفر کرنے والا کوئی بھی ذائقہ دار پکوان کا مزہ لینا ضرور چاہے گا۔
سماجی میل جول: کچھ لوگ سحری کے لیے دوستوں یا خاندان کے ساتھ باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
تجارتی حکمت عملی: ریستورانوں نے اس موقع کو کاروباری نقطہ نظر سے دیکھا اور سحری کو افطار کی طرح ایک منافع بخش موقع میں تبدیل کر دیا۔
شہر حیدرآباد کے اہم کاروباری علاقوں میں شمار کیے جانے والے ’لکڑی کا پل‘ علاقے میں واقع ’امپیریل ہوٹل‘ میں بھی سحری کے خصوصی پیکیجز پیش کیے جاتے ہیں۔ ہوٹل کے منیجر ’سید فرقان‘ نے ہم سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس ماہ رمضان میں وہ گزشتہ سالوں کے برعکس 100 روپے میں مٹن قیمہ اور کھچڑی کا پیکیج متعارف کروارہے ہیں جس کی گزشتہ سال قیمت 120 روپے ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ کھچڑی قیمہ کے علاوہ 65 ڈرائی، تلاہوا گوشت، چکن و مٹن فرائے، زیرا رائس اور دال فرائے جیسے ڈشز بھی ہمارے یہاں دستیاب ہیں۔ انہوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ ہوٹل میں سحری کھانے والوں میں بڑی تعداد طلبہ اور نائٹ ڈیوٹی انجام دینے والے ملازمت پیشہ افراد کی ہوتی ہے۔ ساتھ ہی تبلیغی جماعت سے جڑے وہ افراد جو اضلاع و بیرون ریاستوں سے شہر حیدرآباد رمضان میں آئے ہوئے ہوتے ہیں، ان کی بڑی تعداد بھی اس ہوٹل میں سحری کھانے کے لیے آتی ہیں۔
حیدرآباد سحری کی روایت کا معاشی اثر
کم و بیش سبھی ہوٹل کے ذمہ داران نے اس بات کو تسلیم کیا کہ رمضان کے دوران ان کا کاروبار 100 فیصد بڑھ جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سحری کا انتظام ہوٹلوں میں رکھنے سے ان کے یہاں کام کرنے والے ملازموں پر کام کا بوجھ بھی بڑھ جاتا ہے۔ تمام ملازمین کے لیے بھی سحری کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ معاشی طور پر، یہ رجحان مقامی کاروباروں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے۔ رمضان کے مہینے میں ہوٹلوں کی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے، اور ڈیلیوری سروسز سے وابستہ افراد کے لیے بھی روزگار کے مواقع بڑھ رہے ہیں۔ حیدرآباد کے مشہور کھانوں کی شہرت بھی اس سے مزید پھیل رہی ہے۔
آن لائن فوڈ ڈیلیوری کرنے والے ’محمد عاصم صدیقی‘ نے ہم سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عام دنوں کے مقابلے رمضان کے دوران دن میں آن لائن آرڈرس کم ہی آتے ہیں لیکن افطار کے بعد آن لائن آرڈرس کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے جو سحر تک جاری رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سحری کے لیے شہر حیدرآباد کے پرانے علاقے کی بہ نسبت نئے شہر سے انہیں آرڈر زیادہ ملتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور فوڈ ڈیلیوری کرنے والے ’محمد عارف‘ نے بتایاکہ سحری کے لیے کھانوں کا آرڈر دینے والوں کی تعداد ہر سال بڑھتی جارہی ہے۔ خاص طور پر نئے شہر میں آئی ٹی پیشہ افراد سحری کے لیے ہوٹلوں سے ہی کھانے منگواتے ہیں کیونکہ ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ سحری کے لیے کھانا بنائے، اسی لیے وہ آن لائن سحری کے لیے کھانا منگوانے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور آپشن موجود ہی نہیں ہوتا۔ وہیں دوسری جانب پرانے شہر سے بھی بڑی تعداد میں سحری کے آرڈر آتے ہیں۔
حیدرآباد سحری کی روایت کے سماجی و ثقافتی اثرات
ہوٹلوں میں سحری کھانے کے اس رجحان سے حیدرآباد میں رمضان کے تجربے میں کئی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ایک طرف یہ شہر کی متحرک ثقافت اور جدیدیت کے امتزاج کی عکاسی کرتا ہے، جہاں روایات کو نئے انداز میں اپنایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سحری کا گھریلو اور روحانی پہلو کمزور ہو رہا ہے۔ بزرگ نسل اسے روایات سے دوری کے طور پر دیکھتی ہے، جبکہ نوجوان اسے سہولت اور تنوع کے طور پر قبول کر رہے ہیں۔
شہر حیدرآباد کے نامپلی، حبیب نگر کے رہائشی نوجوان ’محمد شعیب صدیقی‘ کا کہنا ہے کہ ہوٹلوں میں بے شک سحری میں مختلف قسم کے لذیذ پکوانوں کو پیش کیا جاتا ہے لیکن جو مزہ گھر میں تمام ارکان خاندان کے ساتھ مل بیٹھ کر سحری کرنے کا ہے وہ کہیں اور نہیں۔ اتنا ہی نہیں، محمد شعیب نے یہ بھی کہا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ وہ ہوٹلوں میں سحری کھانے کو پسند نہیں کرتے، بلکہ وہ کبھی کبھار دوستوں کے ہمراہ ہوٹل میں سحری کرتے ہیں، تاہم گھر میں ارکان خاندان کے ہمراہ سحر کرنا اور اس کے لیے گھر کی خواتین کا ہاتھ بٹانا تعلقات کو مضبوط اور خوشگوار بناتا ہے۔ اس کے ساتھ سحری کی اصل روح یعنی ’سادگی اور عبادت کے ساتھ تعلق‘بھی برقرار رہتا ہے۔
اگرچہ سحری پیکجز کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن کچھ چیلنجز بھی موجود ہیں
معیار کی نگرانی: ہوٹلوں اور ریستورانوں کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ان کے سحری پیکیجز کا معیار اعلیٰ ہو، تاکہ صارفین کی توقعات پر پورا اتر سکیں۔
قیمتوں کا تعین: سحری پیکیجز کی قیمتیں مختلف ہوٹلوں میں مختلف ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے صارفین کو صحیح انتخاب کرنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔
صحت کی دیکھ بھال: رمضان کے دوران صحت کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ ہوٹلوں کو چاہیے کہ وہ صحت مند اور متوازن کھانے کی پیشکش کریں۔
حیدرآباد میں سحری پیکیجز کا بڑھتا رجحان،شہر کی بدلتی ہوئی طرز زندگی اور کھانوں کے تئیں اس کے تاریخی شوق کا مظہر ہے۔ یہ نہ صرف ایک عملی سہولت فراہم کر رہا ہے بلکہ رمضان کے تجربے کو ایک نیا رنگ بھی دے رہا ہے۔ جہاں یہ رجحان معاشی اور سماجی فوائد لا رہا ہے، وہیں اسے روایت اور جدیدیت کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ حیدرآباد، جو پہلے ہی اپنے افطاری حلیم اور بریانی کے لیے مشہور ہے، اب سحری پیکجز کے ذریعے بھی اپنی منفرد شناخت کو مزید تقویت دے رہا ہے۔