حیدرآباد: شمس آباد میں اتوار کے روز اُس وقت کشیدگی پیدا ہو گئی جب بی جے پی کارکنان نے مشہور کراچی بیکری Karachi Bakery کے باہر مظاہرہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بیکری کے نام سے “کراچی” لفظ کو ہٹا دیا جائے۔
احتجاج کا آغاز نعروں سے ہوا، مگر جلد ہی صورتحال بے قابو ہو گئی۔ مظاہرین نے بیکری کی تختی کو ہٹانے کی کوشش کی اور کچھ افراد نے دکان کے بیرونی حصے کو نقصان بھی پہنچایا۔ مظاہرین “پاکستان مخالف” نعرے لگا رہے تھے اور ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈز تھے جن پر درج تھا کہ یہ نام “غیر قوم پرستانہ” ہے اور بھارت جیسے ملک میں اس کی کوئی جگہ نہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق، مظاہرے کے دوران کچھ دیر کے لیے ماحول میں افراتفری دیکھی گئی، تاہم پولیس اہلکار موقع پر پہنچے، مظاہرین سے بات چیت کی اور بالآخر ہجوم کو منتشر کر دیا۔ کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی، نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں آئی، البتہ پولیس نے بیکری کے بیرونی حصے کو معمولی نقصان کی تصدیق کی ہے۔
کراچی بیکری جو کہ حیدرآباد میں دہائیوں سے قائم ہے، اس قسم کے اعتراضات کا پہلے بھی سامنا کر چکی ہے۔ مالکان متعدد بار وضاحت کر چکے ہیں کہ “کراچی” نام کا مقصد کسی سیاسی وابستگی کا اظہار نہیں بلکہ ان کے آباؤ اجداد کے شہر کی یاد کو زندہ رکھنا ہے۔ بیکری کے بانیوں کا تعلق سندھ سے تھا، جو تقسیمِ ہند کے دوران بھارت منتقل ہوئے تھے، اور یہ نام ان کی ذاتی تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ عوامی خدشات کا نوٹس لے رہے ہیں، تاہم فی الحال بیکری کھلی ہوئی ہے اور اس کا نام بدستور Karachi Bakery ہی ہے۔
یہ واقعہ بھارت اور پاکستان کے مابین سفارتی کشیدگی کے پس منظر میں پیدا ہونے والے ثقافتی تنازعات کی تازہ مثال ہے، جہاں ایک پرانی بیکری بھی سیاسی تنازع کا مرکز بن سکتی ہے۔