کابینہ میں نظرانداز کیے جانے پر راجاگوپال ریڈی کی شدید ناراضگی | Komatireddy Rajagopal Reddy

Komatireddy Rajagopal Reddy

حیدرآباد: تلنگانہ کابینہ میں اتوار کے روز توسیع کے بعد Komatireddy Rajagopal Reddy کو شامل نہ کیے جانے سے ان کی دیرینہ خواہش دم توڑ گئی، جس پر وہ شدید ناراض ہیں۔ ذرائع کے مطابق راجاگوپال ریڈی نے صبح سویرے اپنی جوبلی ہلز رہائش گاہ چھوڑ کر معین آباد میں واقع اپنے فارم ہاؤس کا رخ کیا اور پارٹی قائدین سے ہر قسم کا رابطہ منقطع کر لیا۔

کابینہ میں جگہ نہ ملنے سے ان کی ناراضگی صبح ہی سے واضح تھی، جب حلف برداری کی تقریب نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ کئی مہینوں سے یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ انہیں وزیر بنایا جائے گا، لیکن حتمی فہرست میں ان کا نام شامل نہ ہونے پر وہ سخت برہم ہو گئے۔ سینئر پارٹی رہنما گڈم وویک انہیں منانے کے لیے ان کے گھر پہنچے، لیکن وہ پہلے ہی فارم ہاؤس روانہ ہو چکے تھے۔

پارٹی امور کی انچارج میناکشی نٹراجن اور پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر مہیش کمار گوڑ نے بھی ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، مگر پورے دن وہ ناقابل رسائی رہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ راجاگوپال ریڈی کو اس بات پر شدید غصہ ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے دوران ان سے جو وعدے کیے گئے تھے، وہ پورے نہیں ہوئے۔ پارٹی کی حکمت عملی کے تحت ان سے کہا گیا تھا کہ اگر وہ بھونگیر پارلیمانی حلقہ سے امیدوار چمالا کرن کمار ریڈی کو جتوا دیں تو انہیں کابینہ میں شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے پوری توانائی اور مالی وسائل اس مہم میں جھونک دیے، اور چمالا کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن اس کے باوجود وہ وزیر نہیں بن سکے۔

ذرائع کے مطابق راجاگوپال ریڈی اب یہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی میں اندرونی سازش کے تحت انہیں نظرانداز کیا جا رہا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ خود وزیراعلیٰ ریونت ریڈی بھی ان کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ وہ اس معاملے کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سیکریٹری کے سی وینوگوپال اور میناکشی نٹراجن کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

ان کی ناراضگی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ عرصے سے کابینہ میں شمولیت کی امید لگائے بیٹھے تھے، حالانکہ ان کے بڑے بھائی کومٹی ریڈی وینکٹ ریڈی پہلے ہی اسی ضلع سے وزیر ہیں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق یہی بات ان کے لیے رکاوٹ بن گئی، اور راہول گاندھی نے بھی مبینہ طور پر دو بھائیوں کو ایک ہی ضلع سے وزیر بنانے پر تحفظات ظاہر کیے تھے۔ راہول نے یہ واضح کیا تھا کہ اگر راجاگوپال ریڈی کو وزیر بنایا جائے تو ان کے بھائی کو وزارت سے دستبردار ہونا ہوگا، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

راجاگوپال ریڈی اب گڈم وویک کے خاندان کی مثال دے رہے ہیں جہاں وویک کے بیٹے اور بھائی دونوں عوامی عہدوں پر ہیں اور خود وویک بھی کابینہ میں شامل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے شکوہ کیا ہے کہ جب وویک کو یہ رعایت دی جا سکتی ہے تو انہیں کیوں نہیں؟ انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ انہوں نے پارٹی میں اختلافات سے بچنے کے لیے اپنی اہلیہ کی ایم پی ٹکٹ کی قربانی دی اور چمالا کو کامیاب بنانے کے لیے بھرپور حمایت کی، جو اب ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔

کابینہ کی توسیع کے بعد راجاگوپال ریڈی شدید برہم ہیں اور اسے بار بار دانستہ نظرانداز کیے جانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کچھ وزرا اور خود وزیراعلیٰ ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اب وہ اس معاملے کو پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے سامنے اٹھانے کے لیے پرعزم ہیں۔

Exit mobile version