حیدرآباد: تلنگانہ میں Public Education نظام ایک خاموش مگر شدید بحران کا شکار ہے، جہاں اسکولوں میں داخلے کے رجحانات بتدریج نجی اداروں کی جانب منتقل ہو رہے ہیں۔ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو آئندہ دہائی میں سرکاری اسکولوں کا وجود محض رسمی رہ جائے گا۔
کبھی ریاست میں تعلیم کی مضبوط بنیاد سمجھے جانے والے سرکاری اسکول اب والدین کے اعتماد سے محروم ہو چکے ہیں۔ رواں تعلیمی سال میں دوسری سے دسویں جماعت تک صرف 31 فیصد طلباء سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں، جبکہ 59 فیصد نے نجی اداروں کا رخ کر لیا ہے۔ مزید 10 فیصد طلباء گروکل اور کے جی بی وی جیسے رہائشی اسکولوں میں داخل ہیں، جو سرکاری اسکولوں پر اعتماد کے مسلسل زوال کی نشاندہی ہے۔
سرکاری سے نجی: بڑھتا ہوا جھکاؤ
اعداد و شمار صورتحال کی سنگینی کو واضح کرتے ہیں۔ اگرچہ حکومت سرکاری اسکولوں کی ترویج کا دعویٰ کرتی ہے، زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ رواں تعلیمی سال میں 1,899 سرکاری اسکول ایسے ہیں جن میں ایک بھی داخلہ نہیں ہوا—تین سال قبل یہ تعداد صرف 1,100 کے قریب تھی۔ ان اسکولوں میں سے 1,811 پرائمری سطح کے ہیں۔
دوسری جانب، نجی تعلیمی ادارے خاموشی سے وسعت اختیار کر رہے ہیں۔ محکمہ تعلیم نے اس سال 350 نئے نجی اسکولوں کی منظوری دی ہے، جو کہ گزشتہ چند برسوں سے سالانہ 300 سے 400 کی اوسط کے تسلسل کا حصہ ہے۔ نجی تعلیم کی جانب یہ جھکاؤ اب رفتہ رفتہ نہیں بلکہ مکمل تبدیلی بن چکا ہے۔
تلنگانہ میں مجموعی طور پر 26,861 سرکاری اسکول موجود ہیں، جو ریاست کے کل اسکولوں کا 64.5 فیصد ہیں۔ اس کے باوجود یہ ادارے صرف 31.93 فیصد طلباء کو تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس نجی اسکول، جو صرف 27.59 فیصد ہیں، 59 فیصد طلباء کو تعلیم دے رہے ہیں۔
الزام تراشی اور عوامی اعتماد کا بحران
حکومت سرکاری اسکولوں سے طلباء کی منتقلی کا الزام اساتذہ پر عائد کرتی ہے، جن پر لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اساتذہ اس کے جواب میں بنیادی ڈھانچے کی کمی، سہولیات کی عدم فراہمی، اور نگرانی کے ناقص نظام کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان باہمی الزامات کے دوران اصل مسائل جوں کے توں برقرار ہیں۔
دسویں جماعت کے طلباء کی رخصتی بھی داخلے کے اعداد و شمار کو متاثر کر رہی ہے۔ اس سال تقریباً 18 لاکھ طلباء سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم تھے، جن میں سے 1.5 لاکھ نے ایس ایس سی مکمل کر لی۔ اگر اتنی ہی تعداد میں نئے طلباء داخل نہ ہوئے تو مجموعی تعداد 16.5 لاکھ تک گر سکتی ہے، جو کئی اسکولوں کی بقاء کو خطرے میں ڈال دے گی۔
خاموشی سے ختم ہوتی نظام تعلیم کی بنیاد؟
سرکاری تعلیم پر سے والدین کا یہ اعتماد کا اٹھنا سنگین نتائج کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ جو ادارے کبھی سب کے لیے مساوی تعلیم کی علامت تھے، وہ اب غیر مؤثر تصور کیے جا رہے ہیں۔ یہ تبدیلی صرف بہتر سہولیات یا انگریزی ذریعہ تعلیم کی وجہ سے نہیں، بلکہ ایک عمومی تاثر کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔ اب والدین معیاری تعلیم کو نجی اداروں سے وابستہ سمجھتے ہیں اور سرکاری اسکولوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
اگر فوری اور جامع اصلاحات نافذ نہ کی گئیں تو Public Education نظام تلنگانہ میں ماند پڑ جائے گا—ایسے اسکول جن کی عمارتیں تو موجود ہوں گی، مگر وہ اپنے اصل مقصد یعنی بچوں کے مستقبل کی تعمیر سے خالی ہوں گی۔